اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے وزارتِ قانون کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر سماعت کی۔
سماعت میں تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے دلائل دیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جیل ٹرائل سے متعلق نوٹیفکیشن ایک دفعہ کے لیے تھا۔ اس پر پٹیشن غیر مؤثر ہو چکی ہے۔ رولز آف بزنس میں وزارتِ قانون کے پاس نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جیل ٹرائل کوئی ایسی چیز نہیں، جو نہ ہوتی ہو۔ جیل ٹرائل کا طریقۂ کار کیا ہو گا اس حوالے سے بتائیں؟ اس پر پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ سائفر کیس کا ابھی ٹرائل نہیں ہو رہا۔ وزارتِ قانون نے عدالت منتقلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر کل دوبارہ وہی نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے تو یہی سوال متعلقہ ہو جاتا ہے۔ یہ طے ہونا چاہیے کہ عدالت کا مقام تبدیل کرنے کا اختیار کس کا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ درخواست غیر مؤثر ہونے والی بات سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ جوڈیشل ریمانڈ کے لیے ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ضروری نہیں۔ جب جسمانی ریمانڈ ہو تو ملزم کو پیش کیا جانا لازم ہے۔ اس پر عمران خان کے وکیل شیرافضل مروت نے کہا کہ جوڈیشل ریمانڈ میں بھی ملزم کو پیش کرنے سے کوئی استثنی نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے دیکھنا ہوتا ہے کہ ملزم پر تشدد تو نہیں کیا جا رہا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ریمانڈ میں ملزم عدالتی تحویل میں ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارتِ قانون کا نوٹیفکیشن بد نیتی کی بنیاد پر جاری کیا گیا تھا۔ لہٰذا درخواست غیر مؤثر نہیں ہوئی۔ عدالت نے طے کرنا ہے کہ نوٹیفکیشن درست تھا یا نہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کسی کے پاس جواب ہے کہ سزا معطل ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی اٹک جیل میں کیوں قید ہیں۔ ٹرائل کورٹ کے جج این او سی پر اٹک جیل کیوں چلے گئے؟
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ فاضل جج نے اپنا دماغ استعمال ہی نہیں کیا اور جیل چلے گئے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کل لانڈھی جیل کا این او سی آ جائے تو جج صاحب لانڈھی چلے جائیں گے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے بھی استفسار کیا کہ کل اگر عدالت دوبارہ اٹک جیل منتقل ہونی ہے تو طریقۂ کار کیا ہے؟
پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت اُس عدالت کی حراست میں ہیں۔ قانون میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ جج جیل نہیں جا سکتے۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے دلائل مکمل ہونے پر سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے وزارتِ قانون کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
تحریکِ انصاف کے وکیل شیر افضل مروت نے چیف جسٹس عامر فاروق سے دیگر محفوظ فیصلے سنانے کی بھی استدعا کی۔ اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں اُس پر بھی آرڈر جاری کر دوں گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سائفر کیس کیا ہے؟
عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا تھا جو ان کے مطابق وہ مبینہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا جس میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔
امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی پریس بریفنگزمیں بھی اس بارے میں متعدد بار پوچھے گئے سوالات میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیاہے۔
اپریل 2022 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے حکومت ختم کرنے کی سازش کی۔ بعد ازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔
اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔اس بارے میں عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کیا تھا لیکن جولائی 2023 میں عدالت نے یہ حکم امتناع ختم کر دیا تھا۔
اس کیس میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ میں ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے جولائی میں اسلام آباد میں مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان دیا جس میں انہوں نے سرکاری دستاویز گم کرنے، اور سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے اس سائفر کو استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
حکومت نے کہاتھا کہ اس کیس میں عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی جس کے سیکشن پانچ کے مطابق انہوں نے مبینہ طور پرسرکاری خفیہ دستاویز کو اجازت کے بغیر افشا کیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم انسدادِ دہشت گردی عدالت نےجس کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کا درجہ دیا گیا تھا، سائفر کیس میں عمران خان کو 30 اگست کو پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین عمران خان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے لیےاٹک جیل پہنچے۔ بعد ازاں مختصر سماعت کے بعد انہوں نے عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کر دی تھی۔