پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کی دبئی میں ملاقات اور افواجِ پاکستان کے ترجمان کی پریس کانفرنس پاکستان میں موضوعِ بحث ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اس سے عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا جب کہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ حکمراں اتحاد اب اگلے الیکشن کا فارمولہ طے کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے پیر کی شام دبئی میں ملاقات کی ہے جس میں وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز بھی شریک ہوئیں۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات پر بات چیت ہوئی جس میں نگران سیٹ اپ، انتخابات کی تاریخ سمیت دیگر امور زیرِ بحث آئے۔
سیاسی مبصرین اس ملاقات کو اہم سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کو مقدمات کا سامنا ہے اور اُن کی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتِ حال، آئندہ عام انتخابات کے لیے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ، مرکز میں عبوری حکومت اور ملک کی معاشی صورتَ حال پر بات چیت ہوئی۔
'دونوں جماعتیں آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ پر مشاورت کر رہی ہیں'
تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ یہ ملاقاتیں پاکستان کے سیاسی حالات کے لیے اہم ہیں کیوں کہ یہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے ہو رہی ہوں گی جس میں نگران حکومت کا قیام سرِ فہرست ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی خواہش ہو گی کہ ایسا نگراں سیٹ اپ آ جائے جو دونوں کے لیے بہتر ہو۔
اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) یہ یقینی بنانا چاہتی ہے کہ پنجاب میں اس کی حکومت ہو جب کہ پیپلزپارٹی سندھ پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتی ہے جب کہ وہ پنجاب میں بھی کچھ نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بھی بات ہو رہی ہو گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ دونوں قائدین کے درمیان نگراں وزیرِ اعظم کے نام پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن چوں کہ مفادات ایک ہیں اِس لیے معاملہ سلجھ جائے گا۔
سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ جب تک دونوں جماعتوں کے مفادات ایک ہیں اور پی ٹی آئی کا ووٹ بینک اُسی طرح موجود ہے تو صورتِ حال ایسی ہی رہے گی۔ یہ جماعتیں اکھٹی ہی رہیں گی جب پی ٹی آئی پیچھے ہٹ جائے گی تو دونوں جماعتیں ساتھ رہیں گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر دونوں اتحادی جماعتیں الگ الگ ہو گئیں تو خود گر جائیں گی اور دونوں جماعتیں اتنی تو سمجھدار ہیں کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں اکٹھی رہیں۔
'اتحاد کے بجائے سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاق ہو سکتا ہے'
کالم نویس اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق اِس ملاقات کی کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئیں لیکن ظاہر ہے کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین بیٹھے ہوں گے تو سیاسی اُمور پر ہی بات ہوئی ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سرِ فہرست انتخابات کا بروقت انعقاد ہے۔
اُن کے بقول آئندہ انتخابات میں دونوں جماعتوں کا اتحاد ہوتا تو نظر نہیں آتا لیکن سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا دونوں سیاسی جماعتوں کے لیے چیلنج پی ٹی آئی اور عمران خان ہیں۔ اِن کے بارے میں صورتِ حال واضح نہیں ہے کیوں کہ وہ ابھی نااہل نہیں ہوئے۔ اِسی طرح اُن کی جماعت بھی انتخابی عمل سے باہر نہیں ہوئی۔
'دونوں جماعتوں کے لیے عمران خان اب بھی خطرہ ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین سمجھتے ہیں کہ یہ ملاقات اِس لیے اہم ہے کہ رواں سال 12 اگست کو قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ اگر موجودہ اتحادی حکومت نے انتخابات کرانے ہیں تو کیا لاٗئحہ عمل ہو گا اور اگر نہیں کرانے تو کیا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ بھی افواہیں ہیں کہ عام انتخابات اِس سال کے بجائے اگلے سال میں کسی بھی وقت کرائے جائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس کے برعکس عوام کی طاقت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہے جب کہ موجودہ حکومت پی ٹی آئی کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
چوہدری غلام حسین کا کہنا تھا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کو اب بھی عمران خان سے خطرہ ہے کیوں کہ عوامی سطح پر عمران خان کی مقبولیت کا گراف اب بھی بلند ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زرداری نواز ملاقات میں آئندہ کے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دونوں کی یہ کوشش ہے کہ ایک ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جو دونوں کو قبول ہو۔ دونوں جماعتیں ہی انتخابات میں جائیں اور جیت کر دوبارہ حکومت میں آ جائیں۔
مظہر عباس کی رائے میں نواز شریف اور آصف زرداری کے سامنے پنجاب کی سیاست کا بھی چیلنج ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ پنجاب کی سیاست میں نواز شریف، زرداری صاحب کے مقابلے میں ایک بڑے حصہ دار ہیں۔ لیکن آصف زرداری بھی جنوبی پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ چاہیں گے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ میاں نواز شریف اس کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جہانگر ترین کی قیادت میں ایک نئی جماعت بھی بنی ہے جس میں الیکٹیبلز شامل ہیں۔ اگر یہ الیکٹیبلز مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جاتے ہیں تو پیپلزپارٹی کے لیے کیا مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ تمام باتیں ایک ملاقات میں طے نہیں ہو سکتیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول سیاسی جماعتوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں نئی بننے والی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کو زیادہ اہمیت نہ مل جائے اور بڑی سیاسی جماعتوں کو دبانے کی کوشش نہ کی جائے۔
اُن کے بقول استحکام پاکستان پارٹی سے دونوں جماعتوں کو تحفظات بھی ہیں اور دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ چاہتے ہیں کہ ایسا نگراں سیٹ اَپ آئے کہ اگلی حکومت بنانے میں آسانی ہو۔
چوہدری غلام حسین کے بقول پہلے زرداری صاحب کو کہا گیا تھا کہ آئندہ سیٹ اَپ میں وزارتِ عظمیٰ پیپلزپارٹی کو دی جائے گی مگر دوسری جانب یہ بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کو ہی دوبارہ لایا جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت کسی بھی رُکن اسمبلی کی تاحیات نااہلی کی مدت کم کر کے پانچ سال کر دی گئی ہے جس کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔
خیال رہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے نو مئی کے واقعات بارے پریس کانفرنس کی گئی ہے۔ڈی جی ایس پی آر نے نام لیے بغیر یہ کہا کہ تمام تر واقعات کی ذمے دار ایک سیاسی جماعت ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اور بڑی سیاسی ملاقات ایک ہی دِن کیوں؟
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں پیر کی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی کے لیے سیاسی اعتبار سے کوئی اچھی صورتَ حال نہیں ہے، اُن کے لیے مشکلات ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو چاہیے کہ فوری طور پر نو مئی کے پرتشدد واقعات میں ملوث عناصر سے خود کو الگ کرے۔ ایسے عناصر کو جماعت سے نکالے اور کہے کہ جو بھی اِن اقدامات میں ملوث ہو گا اُس کو جماعت سے نکال دیا جائے گا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اپنی جماعت کو ایک صاف ستھری سیاسی جماعت بنائیں۔ نو مئی کے بعد فوج کے اندر پی ٹی آئی کے حوالے سے ایک پرتشدد جماعت کا تاثر پیدا ہوا ہے۔ اسے اعتماد سازی کی بحالی کے اقدامات سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔