پاکستان کے 27 ویں چیف جسٹس کے عہدے پر تقریباً دو سال تک فائز رہنے کے بعد جسٹس گلزار احمد ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔ ان کے دورکا زیادہ تر عرصہ کرونا وبا کے زیر اثر رہا لیکن اس کے باوجود بھی اس دور میں سپریم کورٹ سے جڑے کئی تاریخ ساز واقعات اور اہم فیصلے سامنے آئے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے جسٹس گلزار احمد نے بطور وکیل 1986 میں اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔ 2002 میں انہیں جب سندھ ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تو وہ ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے دوسرے عبوری آئینی حکم نامے یعنی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ نو برس تک ہائی کورٹ کے جج کے طور پر کام کرنے کے بعد جسٹس گلزار احمد کو 2011 میں سپریم کورٹ کاجج مقرر کر دیا گیا۔
بطور جج سپریم کورٹ، وہ اس بینچ کا بھی حصہ رہے جس نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو آرٹیکل 62 ایف کے تحت غیر ملکی اقامہ رکھنے پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ لیکن بطور چیف جسٹس ان کے دور میں کراچی میں رفاہی پلاٹس پر قائم تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، گجر نالے کے اطراف قائم تجاوزات کے علاوہ سرکلر ریلوے کی بحالی اور اس سے جڑے کئی کیسز سرفِہرست رہے۔ ایسے کیسز میں سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرنے کے ساتھ متاثرین کی بحالی کا بھی حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیے
’ صوبائی حکومت با اختیار بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی پابند ہے‘؛ سپریم کورٹ کا فیصلہکیا نواز شریف کو واپس لانے کے لیے حکومت کے پاس قانونی آپشنز ہیں؟ اصلاحات سے کام نہیں چلے گا، پاکستان کا عدالتی نظام یکسر بدلنا ہو گا: ماہرینپاکستانی فوج کے زیرِ انتظام حراستی مراکز کو کیا اب بھی قانونی تحفظ حاصل ہے؟
لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر سے متعلق ایسے کئی فیصلوں کے باوجود بھی عدلیہ تنقید کی زد میں رہی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد کے خیال میں ایک جانب عدالتی حکم کے تحت گجر نالے اور نسلہ ٹاور کے مکینوں کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ لیکن دوسری جانب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ایک فیصلے میں وزیرِ اعظم کی بنی گالا رہائش گاہ کو ریگولرائز کرنے کا حکم دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا جنہوں نے یہ تعمیرات کیں یا ان کی اجازت دی۔ اسی طرح فوجی زمینوں پر کمرشل سرگرمیوں کی روک تھام کے فیصلے تو دیے گئے لیکن پر ان پر عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا۔ ایسے فیصلوں اور پھر ان پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے سے عوام کو منفی پیغام گیا اور اسی وجہ سے یہ فیصلے تنقید کی زد میں رہے۔
سپریم کورٹ کے ایک اوروکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے مطابق کراچی کی بہتری اور یہاں غیر قانونی تجاوزات کے خاتمے کے لیے جسٹس گلزاراحمد کے فیصلوں کا کلیدی کردار ہے۔
اُن کے بقول اس کی وجہ سے عوامی مقامات کی بحالی اور یہاں کے حالات بہتر کرنے میں اس سے بہتر اور عوامی مفادات کے فیصلے پہلے کبھی نہیں آئے۔ مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے علاوہ کہیں اور کے مسائل حل کرنے میں عدالتی فعال کردار اور عوامی مفادات کے مزید کیسز نظر نہیں آتے۔
"کرونا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیسز نے زیر التوا کیسز کی تعداد بڑھادی"
اسی طرح جسٹس گلزار احمد کے دور میں ایک اور اہم مسئلہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف مبینہ غیر قانونی اثاثہ جات کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا صدارتی ریفرنس تھا۔
اس معاملے کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا 10 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے نظر ِثانی کی درخواست دائر کی گئی اور اس پر بھی طویل سماعتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس طرح 17 ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے کئی ججز اس اہم کیس کی سماعت میں مصروف رہے۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے مطابق اس کیس کی سماعت میں کافی عدالتی وقت ضائع ہوا جب کہ کرونا کی وجہ سے پہلے ہی کیسز کی سماعت کسی حد تک متاثر ہورہی تھی اور اس کا نتیجہ سپریم کورٹ میں دیگر کیسز کے التوا میں رہنے کی صورت میں سامنے آیا۔
اسی طرح کرک میں ہندوؤں کے مندر کو جلائے جانے پر بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد پولیس نے ملزمان کو گرفتار کیا اور عدالتی حکم پر مندر کی تعمیر کی گئی جب کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ملوث ملزمان سے رقم لے کر قومی خزانے میں جمع کرائی جائے۔
یہی نہیں بلکہ بطور چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی سانحہ آرمی پبلک اسکول کیس میں طلب کیا۔ عدالت نے وزیرِ اعظم کو ہدایت کی کہ اے پی ایس متاثرین کا مطالبہ ہے کہ اُس وقت کی فوجی اور سول قیادت کے خلاف کارروائی کی جائے، لہذٰا وزیرِ اعظم بچوں کے والدین کو مطمئن کریں۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے سپریم کورٹ کے بینچ نے صدارتی ریفرنس میں پوچھی گئی رائے پر سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کو آئین کے مطابق قرار دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ ان انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے طریقۂ کار وضع کرے۔
اسی طرح جسٹس گلزار احمد کا ایک اور اہم فیصلہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال کیے جانے سے متعلق آیا۔ لیکن سات ماہ گزر جانے کے بعد بھی اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا تو عدالت نے اس پر تحقیقات کا حکم دیا جس پر صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا۔ لیکن 31 دسمبر کو مدت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر پنجاب میں بلدیاتی اداروں کے نئے انتخابات کا فی الحال کوئی اعلان نہیں ہوا ہے۔
لیکن جسٹس گلزار احمد کے بطور چیف جسٹس صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیر انتظام حراستی مراکز سے متعلق کیس اور سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے غداری کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے سے متعلق درخواست سمیت کئی اہم اور حساس کیسز کی شنوائی نہیں ہوسکی۔
"ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی"
ادھر سندھ بار کونسل کے ممبر اور وکیل رہنما حیدر امام رضوی کے خیال میں بھی جسٹس گلزار کے دور میں ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی سے متعلق جو امیدیں تھیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس دوران کوئی عدالتی اصلاحات ہوئیں اور نہ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال کیا گیا جس سے اعلٰی عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کا ازالہ نہیں ہو سکا۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے خیال میں جسٹس گلزار احمد درحقیقت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا احتساب کرنے میں ناکام نظر آئے ہیں جو عدلیہ کی ساکھ کے لیے ضروری ہے۔
حیدر امام رضوی کا کہنا تھا کہ وکلا برادری اور ان کی تنظیموں کی بھرپور مزاحمت کے باوجود بھی سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے ججز کو مقرر کیا گیا۔
مگر ایسے وکلا کی بھی کمی نہیں جو سنیارٹی کے اصول کو متروک سمجھتے ہوئے میرٹ پر ججز کی تعیناتیوں کے حامی ہیں۔ اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ سنیارٹی کا اصول کوئی اصول نہیں اور اس کے بجائے سپریم کورٹ میں تعیناتی جج کی قابلیت، اس کے کام اور سمجھ بوجھ پر دی جانی چاہیے۔ اس اصول کے تحت جسٹس گلزار احمد نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ اور جوڈیشل کمیشن کے چئیرمین کے طور پر میرٹ پر تقرریاں کیں جو تاریخی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سنیارٹی کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار خاتون جج جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
"عدالتی اصلاحات کے عمل کا فقدان نظر آیا"
بیشتر وکلا اور قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ جسٹس گلزار احمد کے دور میں عدالتوں میں اصلاحات کا عمل بالکل نظر نہ آیا۔ حتیٰ کہ عدالتیں اپنے ہی فیصلوں پر عملدرآمد کرنے اور کرانے میں بھی ناکام نظر آئیں۔ جن میں سے ایک اردو زبان میں عدالتی فیصلے لکھنے اور ان کی ترویج کا اہم عدالتی فیصلہ شامل تھا جس پر کوئی عملدرآمد نظر نہیں آیا۔
البتہ بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتی اصلاحات کے لیے عدلیہ اور مقننہ کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گی اور اس کے لیے مل کر لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا ورنہ وہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوں گی۔ اور یہی نئے چیف جسٹس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان کے نزدیک نئے چیف جسٹس، جسٹس عطا بندیال کو اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں عوامی مفادات کے کیسز کو بھی اہمیت دینی ہوگی تاکہ عام لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد مستحکم ہوسکے۔