پاکستان میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت رائج کرنے کے مطالبات سامنے آنے کے بعد یہ عنوان ایک بار پھر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
حالیہ دنوں میں قومی ذرائع ابلاغ سے لےکر سوشل میڈیا اور پارلیمنٹ تک ہر جگہ صدارتی نظامِ حکومت کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔
بعض حکومتی رہنماؤں، تجزیہ کاروں اور سابق فوجی افسران کی طرف سے ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے دلائل سامنے آنے کے بعد سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
اگرچہ پاکستان میں یہ بحث وقتا فوقتاً ہوتی رہی ہے لیکن حالیہ عرصے میں بعض حکومتی رہنماؤں کی جانب سے صدارتی نظام کے حق میں بیانات نے اس موضوع کو اہم بنا دیا ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے ایک ٹی وی شو میں کہا تھا کہ پارلیمانی نظام میں بہت سمجھوتے اور بلیک میل ہونا پڑتا ہے اس لیے صدارتی نظام بہتر رہے گا۔
حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومتی رہنماؤں کے صدارتی نظام کے حق میں بیانات پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ صدارتی نظام کے حق میں مہم کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ صدارتی نظام پر بحث ایک ایسے وقت میں سامنےآئی ہے جب حکومت کی مدت مکمل ہونے میں ڈیڑھ برس کا وقت رہ گیا ۔
'حکومت کی ناکامی پارلیمانی نظام کی ناکامی نہیں'
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمان کہتی ہیں کہ پاکستان کا آئین ہماری تاریخ کی واحد متفقہ دستاویز ہے جس میں ملک کا نظام وفاقی پارلیمانی رکھا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام کے خلاف مہم دراصل آئینِ پاکستان کے خلاف مہم ہے جو تشویش ناک اور قابلِ مذمت ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ آئین اور پارلیمانی نظام ملک کو جوڑ کر رکھتے ہیں جب کہ ماضی میں آئین توڑ کر صدارتی نظام نافذ کرنے کی قیمت ملک ابھی تک ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین برس سے موجودہ حکمرانوں کی طرف سے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے خلاف مسلسل بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
پی پی پی کی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی ناکامی پارلیمانی نظام کی ناکامی نہیں ہے، صدارتی نظام آزما چکے اب اصل جمہوریت آزمائیں۔
'صدارتی نظام پر بحث کا مقصد 18ویں ترمیم کی واپسی ہے'
حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ صدارتی نظام سے چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی مزید بڑھے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے اگر صدارتی نظام میں صدر کا انتخاب ہو گا تو وہ بڑے صوبے سے ہی منتخب ہو گا جس سے لامحالہ چھوٹے صوبوں کے تحفظات بڑھیں گے۔
مصدق ملک کہتے ہیں کہ بظاہر کسی فورم پر ایسی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی ہے تاہم جو ملک کو طاقت سے چلانا چاہتے ہیں وہاں یہ گفتگو ہوسکتی ہے۔
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اس قسم کے تجربات پہلے کرچکے ہیں جہاں دس دس برس کے مارشل لا لگائے جاچکے ہیں۔
سینیٹر مصدق ملک کے بقول پاکستان کا پارلیمانی نظام اقتدار میں توازن اور بات چیت کا نظام ہے جس کے اندر ہر کسی کی بات سننا اور اس بات کا جواب دینا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بعض حکومتی وزرانے گزشتہ برس تواتر سے صدارتی نظام کی بات کی لیکن اس کے ساتھ ہر مرتبہ جو بات کی وہ 18 ویں ترمیم کی واپسی کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ صدارتی نظام کی بات بہانہ ہے اور اس کے اندر اصل خواہش 18ویں ترمیم کو ختم کرنا ہےا ور دونوں قسم کی بحث کا مقصد ایک ہی ہے کہ اختیارات مرکز میں ہوں۔
مصدق ملک نے کہا کہ صدارتی نظام کی بحث اس وجہ سے بار بار چھیڑی جاتی ہے کہ موجودہ نظام مفلوج ہو چکا ہے اور معاشی نظام تباہ ہونے کو ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ایک بحران پیدا کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگر یہ نہیں تو کیا ؟ لیکن اس کا جواب یہی ہے کہ ہم سب آزما چکے ہیں اور اب عوامی رائے، عوامی حقوق اور اصل جمہوریت کو آزما کر دیکھیں۔
'پارلیمانی یا صدارتی جو بھی نظام رائج ہو گا اتفاقِ رائے کے بغیر نہیں لایا جا سکتا'
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹی کے چیئر مین سیینٹر ولید اقبال کہتے ہیں کہ پارلیمانی اور صدارتی دونوں جمہوری نظام ہیں اور اس قسم کے بنیادی عنوان پر بحث ہوسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ بحث ایسے ہی موقع پر ہوتی ہے جب رائج نظام نتائج نہیں دے پا رہا ہوتا۔
ولید اقبال کہتے ہیں سن 1973 کے آئین کی بنیادی ساخت پارلیمانی نظام ہے اور سپریم کورٹ بھی اس کی وضاحت کر چکا ہے کہ دستور کے مطابق ملک کا نظام وفاقی پارلیمانی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پارلیمانی یا صدارتی جو بھی نظام رائج ہو گا وہ اتفاقِ رائے کے بغیر نہیں لایا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی موجودہ پارلیمانی نظام سے مطمئن نہیں ہے تو اتفاقِ رائے سے ہی نیا نظام لانا ہو گا اور اتفاقِ رائے کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے۔
سینیٹر ولید اقبال کہتے ہیں کہ صدارتی نظام پر گفتگو کرنا اور اس کا آئین میں دیے گئے نظام سے موازنہ کرنا قطعی غیر آئینی نہیں ہے۔ اگر ملک کو صدارتی نظام کی طرف جانا ہے تو اس کے لیے دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کروانا ہوں گے۔ صدارتی نظام ملک و خطے سے ہم آہنگ نہیں، صوبے فیصلہ سازی میں برابر کردار چاہتے ہیں۔
'موجودہ پارلیمنٹ پارلیمانی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی'
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدرسیینٹر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ آئین میں ملک کا ڈھانچہ وفاقی پارلیمانی ہے اور اس ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے آئین میں ترامیم نہیں بلکہ نئی دستور ساز اسمبلی کا انتخاب کرنا ہو گا کیوں کہ موجودہ پارلیمنٹ وفاقیت اور پارلیمانی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر نئی دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے تو بہت سے دیگر مسائل بھی سامنے آجائیں گے اور موجودہ حالات اور سیاسی صورتِ حال میں ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں آبادی کا تناسب ایک جیسا نہیں ہے اور اس حوالے سے چھوٹے صوبوں کے لوگوں میں بہت شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایسا ایک تجربہ ہو چکا ہے کہ ہمارے ملک کا بڑا حصہ ہمیں چھوڑ کر الگ ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ آبادی کے حوالے سے تین چھوٹے صوبوں میں عدم اعتماد پایا جاتا ہے اور ہر صوبہ چاہتا ہے کہ ملک کی فیصلہ سازی میں اس کی شمولیت برابری کی بنیاد پر ہو اور اسی بنا پر ایوان بالا یعنی سینیٹ کا تصور لایا گیا۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سینیٹ میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی حاصل ہے۔
کامران مرتضیٰ کا مزید کہنا تھا کہ صدارتی نظام میں اختیارات ایک ہی آدمی کے پاس ہوتے ہیں اور یہ ہمارے ملک اور خطے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر موجودہ پارلیمانی نظام نتائج نہیں دے پایا تو اس میں پارلیمانی نظام کا قصور نہیں بلکہ دیگر عوامل حائل رہے جس کی بنا پر ہم پارلیمانی نظام کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔