کیا پنجاب کابینہ کے معاملے پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اختلافات ہیں؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ اُمیدوار چوہدری پرویز الہٰی وزیرِ اعلٰی بن گئے ہیں۔ تاہم سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے کابینہ کے لیے دیے جانے والوں ناموں میں مسلم لیگ (ق) کا کوئی بھی رُکن نہ ہونے پر صوبے میں قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سابق وزیرِ اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ کابینہ کا حجم مختصر رکھا جائے جب کہ بعض ماہرین کے مطابق چوہدری پرویز الہٰی مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو بھی کابینہ میں نمائندگی دلوانا چاہتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق کابینہ میں ابتداً مسلم لیگ (ق) کو نمائندگی نہ ملنے پر چوہدری شجاعت حسین گروپ نے ان اراکین سے رابطے کر کے کہا ہے کہ عمران خان مسلم لیگ (ق) کو کابینہ میں حصہ نہیں دیں گے، لہذٰا وہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کریں۔

ابتدائی طور پر صوبہ پنجاب میں 21 رکنی کابینہ سامنے آئی ہے جس میں بیشتر چہرے پرانے ہیں جب کہ کچھ نئے ناموں کو بھی وزیر بنایا گیا ہے۔

اِس سلسلے میں بدھ کی شام عمران خان نے نامزد وزرا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان کی حکومت عوام کے لیے کام کر رہی ہے۔ واضح فرق نظر آنا چاہیے۔

مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما مونس الہٰی نے جمعرات کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ اُن کی عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔ اُن کی مہربانی کہ اُنہوں نے ہمیں پنجاب میں وزارتِ اعلٰی دی، ہمارا مزید کوئی مطالبہ نہیں۔ لیکن عمران خان نے دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ (ق) کو کابینہ میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔


یاد رہے اِس سے قبل جب صوبہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور وزیرِاعلٰی عثمان بزدار تھے تو مسلم لیگ (ق) کے پاس دو وزارتیں اور اسپیکر کا عہدہ تھا۔

جمعرات کو لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سے یہ سوال ہوا کہ کابینہ میں مسلم لیگ (ق) کو تاحال نمائندگی نہیں ملی تو اس پر چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے یہی کافی ہے کہ عمران خان نے اُنہیں وزیر اعلٰی بنا دیا ہے۔

مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو تاحال کابینہ میں شامل نہ کیے جانے پر ردِعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ق) پنجاب کے جنرل سیکریٹری کامل علی آغا نے کہا کہ بہت جلد معاملات طے پا جائیں گے۔

مسلم لیگ (ق) کی رُکن پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ پرویز الہٰی وزیرِ اعلٰی بن گئے ہیں تو وہ سب ہی وزیر بن گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ بہت سے معاملات پر کام ہو رہا ہے، بہت جلد سب بہتر ہو جائے گا۔

چوہدری شجاعت حسین اور چوپدری پرویز الٰہی کے درمیان اختلاف سے متعلق خدیجہ عمر نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ جماعت کے تمام ارکان چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے ساتھ مل کر چل رہے ہیٰں۔ اختلافات ہر جگہ ہو جاتے ہیں۔


خیال رہے گزشتہ ہفتے چوہدری شجاعت حسین نے بطور صدر پاکستان مسلم لیگ (ق) کے جنرل سیکریٹری طارق بشیر چیمہ کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی تھی جس سے اُن کے اور پرویز الٰہی کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے تھے۔

تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پنجاب کابینہ کے معاملہ پر عمران خان اور پرویز الٰہی کے درمیان اختلاف موجود ہیں، لیکن یہ بات طول نہیں پکڑے گی۔ معاملات کو سلجھا لیا جائے گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پنجاب کابینہ کے لیے اِب تک جتنے بھی نام سامنے آئے ہیں۔ وہ سب عمران خان صاحب کی منظوری سے صوبائی حکومت کو بھجوائے ہیں جن میں ق لیگ کو کوئی حصہ نہیں ملا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان معاملات طے پا جائیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ کابینہ مختصر رکھی جائے اور محکموں کی تقسیم بھی وہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ پرویز الٰہی عثمان بزدار نہیں ہیں۔ ان کا اپنا ایک طریقۂ کار ہے۔ اپنی ایک شخصیت ہے۔ اپنی ایک جماعت ہے۔ اِس لیے تاخیر ہو رہی ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ پنجاب کابینہ میں شمولیت کے لیے جماعتیں دو ہیں۔ امیدوار زیادہ ہیں اور جگہ کم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پرویز الٰہی صاحب چاہتے ہیں کہ کابینہ میں اُن کی جماعت کی بھی شمولیت ہو جس کی گنجائش فی الحال نظر نہیں آ رہی۔ جس سے مسلم لیگ (ق) خوش نہیں ہے اور بات اختلاف تک جا پہنچی ہے۔

اُن کے بقول عمران خان چاہتے ہیں کہ پنجاب کابینہ میں پی ٹی آئی کے ارکان کی شمولیت زیادہ ہو۔ اُن کے ارکان کو زیادہ سے زیادہ وزارتیں دی جائیں۔

مجیب الرحمٰن شامی کے مطابق کابینہ کے معاملہ پر عمران خان اور پرویز الٰہی کے درمیان اختلاف بڑھتا تو نظر نہیں آ رہا، لیکن پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ پنجاب میں طاقت کا توازن مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین کے پاس ہے۔ وہ جس کے پلڑے میں بھی وزن ڈالیں گے، پنجاب میں حکومت اُسی کی ہو گی۔ لہذٰا مسلم لیگ (ق) کے مطالبات کو رد کرنا عمران خان کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا۔

چوہدری شجاعت حسین سے متعلق مجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ اَب تک جس طرح اُنہوں نے اپنے پتے کھیلےہیں اُس سے تو اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔

سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ محض وزاتوں کی تقیسم کی بنیاد پر پی ٹی آئی اور ق لیگ میں اختلاف بڑھے گا۔ جو وقت کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ ایک یا دو وزیر مسلم لیگ (ق) سے بن جانے کی صورت میں بات ختم ہو جائے گی۔