"سانحہ آرمی پبلک اسکول سیکیورٹی کی ناکامی تھی، اربوں روپے انٹیلی جنس پرخرچ ہوتے ہیں۔ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے۔ دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ انٹیلی جنس پر اتنا خرچ ہو رہا ہے اور نتائج صفر ہیں۔ لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟"
یہ ریمارکس چیف جسٹس جسٹس گلزار کے تھے جنہوں نے سانحہ اے پی ایس کی سماعت کے دوران بدھ کو وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کو طلب کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ میں سانحہ اے پی ایس کئی دن پہلے سے کاز لسٹ میں شامل تھا اور اسے بدھ کو بھی معمول کی کارروائی سمجھا جا رہا تھا۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان روسٹرم پر آئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں تھی۔ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔
اٹارنی جنرل اس موقع پر جذباتی ہو گئے اور بولے کہ ہم تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں، میں دفتر چھوڑ دوں گا، لیکن اس معاملے پر کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔ مجھے وقت دیں تو وزیرِاعظم سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کروں گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا وزیرِاعظم نے اس کیس کے بارے میں عدالتی حکم پڑھا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیرِاعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا۔ وزیرِاعظم کو میں عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب سنجیدگی کا یہ عالم ہے؟ آپ وزیرِاعظم کو بلائیں، ان سے خود بات کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عدالت نے وزیرِ اعظم کو طلب کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ باقی سماعت وقفہ کے بعد ہو گی جس پر سپریم کورٹ میں کھلبلی مچ گئی۔
پولیس کی بھاری نفری اچانک سپریم کورٹ کی طرف آنے لگی اور احاطۂ عدالت کے اندر اور باہر پولیس اہل کار سینکڑوں کی تعداد میں پہنچ گئے۔
اسپیشل برانچ نے آ کر عمارت کلیئر کروانا شروع کر دی، وزیرِاعظم کی اپنی سیکیورٹی ٹیم پہنچ گئی اور بینچ نمبر ون سمیت تمام راستوں کو بم ڈسپوزل اسکواڈ نے چیک کرنا شروع کر دیا۔
میڈیا کارکن بھی بڑی تعداد میں عدالت کی طرف بھاگے اور تمام چینلز کی دو سے تین ڈی ایس این جیز بھی سپریم کورٹ پہنچ گئیں جہاں ایک طرف سے مین داخلی مقام کو کور کیا جا رہا تھا اور دوسری جانب میڈیا ٹاک کے مقام پر کیمرے لگے ہوئے تھے۔
وزیرِاعظم عمران خان ساڑھے گیارہ بجے ججز گیٹ سے داخل ہوئے اور عقبی جانب کا راستہ استعمال کرتے ہوئے بینچ نمبر ون پہنچے۔ وزیرِاعظم کمرہ عدالت میں بیٹھے تو انہوں نے اپنی تسبیح کے دانوں کو گھمانا شروع کر دیا، اس دوران عقبی نشست پر فواد چوہدری آ کر بیٹھ گئے اور وزیرِاعظم سے بات کرنے لگے۔
وزیرِاعظم کے آنے سے قبل وزیرِ داخلہ شیخ رشید، شہباز گل، علی زیدی بھی کمرۂ عدالت میں آ کر پچھلی نشستوں پر بیٹھ گئے تھے۔
اس دوران ججز کے آنے پر وزیرِاعظم بھی احتراماً کھڑے ہوئے اور کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ وزیرِ اعظم صاحب آپ روسٹرم پر آئیں۔ وزیرِاعظم کے ساتھ اٹارنی جنرل خالد جاوید بھی روسٹرم پر ان کے قریب کھڑے ہو گئے۔
اس موقع پر سانحہ اے پی ایس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین بھی روسڑم پر چلے گئے جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ وہ بیٹھ جائیں، ان سے بعد میں بات کی جائے گی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شہدائے اے پی ایس کے والدین کو مطمئن کرنا ضروری ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام کے خلاف کارروائی ہو۔ اس پر وزیرِاعظم نے کہا کہ جب سانحہ ہوا تو وفاق میں ہماری حکومت نہیں تھی، صوبے میں ہماری حکومت تھی، صوبائی حکومت جو بھی ازالہ کر سکتی تھی کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شہدا کے والدین کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت سے ازالے کے لیے امداد نہیں چاہیے، انہیں اپنے بچے چاہئیں، کیا آپ وہ لا سکتے ہیں؟ بچوں کے والدین سوال کرتے ہیں کہ پورا سیکیورٹی سسٹم کہاں تھا؟ ہمارے واضح حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس کے بعد جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمیں میڈیا سے پتہ چل رہا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ آپ انہی مجرموں کو مذاکرات کی میز پر لے آئے، کیا آپ دوبارہ اُن کے سامنے سرنڈر کر رہے ہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسکول کو دھمکیاں مل چکی تھیں، انہیں سیکیورٹی کیوں نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت جو حکومت کے کرتا دھرتا تھے وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں، ہمارے حساس اداروں نے کیا کیا؟
وزیرِاعظم اس دوران ایک جج سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے جج صاحبان کے چہروں کو دیکھتے رہے اور بالآخر بولنے کا موقع ملنے پر کہا کہ چیف جسٹس صاحب اگر آپ نے مجھے بلایا ہے تو مجھے بولنے کا موقع بھی دیں۔ میں اس وقت حکومت میں نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے مجھے بتایا ہے کہ اس وقت کے عہدے داران پر کرمنل نہیں اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
اس کے بعد وزیرِاعظم نائن الیون، امریکی جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں بات کرتے رہے، جس پر ایک موقع پر جسٹس قاضی امین کو کہنا پڑا کہ وزیرِاعظم صاحب ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔ مدعے پر رہیں، ماضی کی باتوں کو چھوڑیں۔
سماعت کے دوران وزیرِاعظم اور اٹارنی جنرل نے سانحۂ اے پی ایس پر اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کی بھی تجویز دی۔ لیکن عدالت نے یہ تجویز مسترد کر دی جس پر عمران خان نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے ماورا نہیں، آپ حکم کریں ہم ایکشن لیں گے۔
عدالت نے جب اے پی ایس سانحہ میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین سے ملنے کی بات کی تو وزیرِاعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری 80 ہزار شہادتیں ہوئی ہیں، ان کے لواحقین بھی دکھی ہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیرِاعظم کو اس کیس تک محدود رہنے کی ہدایت کی۔
عدالت نے دو ہفتوں میں اے پی ایس سانحے کے ذمے داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو ہفتوں کا وقت بہت کم ہے جس پر عدالت نے اس مہلت کو چار ہفتوں کے لیے بڑھاتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔
وزیراعظم بینچ نمبر ون سے باہر نکلے تو ان کی سیکیورٹی نے انہیں گھیرا ہوا تھا اور وہ وزیرِاعظم کو ججز کے لیے مخصوص راستوں سے لے کر ججز گیٹ کی طرف چلے گئے۔
اس دوران بعض صحافیوں نے سابق آرمی چیف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے نام لے کر کارروائی کا پوچھا تو وزیرِاعظم سر جھٹک کر آگے چلے گئے۔ صحافیوں کی طرف سے جب باآواز بلند سوال پوچھے جانے لگے تو وفاقی وزیر امین اسلم نے دیگر وزرا کے ساتھ مل کر وزیرِاعظم کے گرد حلقہ بنایا اور پولیس اہل کاروں کو صحافیوں کی طرف اشارہ کیا جس کے بعد صحافی وہیں رک گئے اور وزیرِاعظم آگے نکل گئے۔
کمرہؐ عدالت میں بدھ کو سانحہ اے پی ایس کے لواحقین کے وکیل امان اللہ کنرانی ویڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہو رہے تھے لیکن ان کی کئی بار کی کوششوں کے باوجود انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
باہر میڈیا کارنر پر شیخ رشید اور فواد چوہدری چار ہفتوں کی یقین دہانی کروا رہے تھے اور ان کے قریب کھڑے بعض والدین اپنے بچوں کی تصویروں کو حسرت سے دیکھ رہے تھے۔
سانحہ اے پی ایس میں ہلاک ہونے والے اسفند خان کی والدہ شاہانہ اجون جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور جب ایک صحافی نے ان سے بات کے بعد ان کے لیے صبر کی دعا دی تو وہ اچانک چیخ پڑیں اور بولیں "صبر نہیں چاہیے، انصاف چاہیے"۔
تحریک ظالبان کے ساتھ مذاکرات پر بھی ان کا کہنا تھا کہ قاتلوں کو ایک بار پھر بچے مارنے کے لیے لانا چاہتے ہیں، یہ ہوتے کون ہیں ان سے مذاکرات کرنے والے، بچے ہمارے مرے ہیں، ان کے نہیں۔