پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان آرمی پبلک اسکول حملے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے۔ انہوں نے عدالت کو واقعے کے تمام ذمہ داران کا تعین کرنے اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کی رپورٹ کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے حکومت آرمی پبلک اسکول حملے سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمدر اور ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔
عدالت نے کہا ہے کہ چار ہفتوں بعد عدالت میں رپورٹ جمع کرائی جائے جس پر وزیرِاعظم کے دستخط موجود ہوں۔
اسلام آباد میں بدھ کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آرمی پبلک اسکول حملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت میں ابتدا میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے اور گزشتہ سماعت پر دیے گئے حکم پر پیش رفت سے آگاہ کیا۔
عدالت نے گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ وہ آرمی پبلک اسکول میں جان سے جانے والے بچوں کے والدین کی اعلیٰ سول و عسکری حکام کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر حکومت سے ہدایت لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔
آرمی پبلک اسکول حملے میں ہلاک بچوں کے والدین نے سابق آرمی چیف راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام، سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار و دیگر حکام پر مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی تھی۔
عمران خان اور ججز کے درمیان کیا مکالمہ ہوا؟
بدھ کو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
لگ بھگ ساڑھے گیارہ بجے وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عمران خان سپریم کورٹ پہنچے اور اپنا مؤقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا اسامہ بن لادن اور افغانستان سے لینا دینا نہیں تھا۔ پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ غیرجانب دار رہنا چاہیے تھا۔ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے اور دشمن کون۔
وزیرِاعظم نے کہا کہ پاکستان دوسروں کی جنگ لڑتا رہا جس میں ہمارے 80 ہزار لوگ جان سے گئے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اس لیے جیتا کہ قوم پیچھے کھڑی تھی۔
اس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بتائیں اب تک کس کو پکڑا گیا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومت نے کوئی اقدامات اُٹھائے ہیں تو عدالت کو بتایا جائے۔ آئین پاکستان ہر پاکستانی کے جان و مال کا تحفظ دیتا ہے۔
عدالتی استفسار پر وزیراعظم نے کہا کہ سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی۔ جب سانحہ ہوا تو صوبے میں ہماری حکومت تھی۔ واقعے کے دن ہی پشاور گیا اور اسپتال جاکر زخمیوں سے ملا۔ واقعے کے وقت ماں باپ سکتے میں تھے۔ صوبائی حکومت مداوا کرسکتی تھی وہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ والدین کہتے ہیں ہمیں حکومت سے امداد نہیں چاہیے۔ والدین کا مؤقف ہے کہ پورا سیکیورٹی سسٹم کہا تھا۔
چیف جسٹس نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ بااختیار وزیرِاعظم ہیں۔ سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے کیا کر رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ شہدا کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔ آرمی کے اس وقت کے جو کرتا دھرتا تھے وہ مراعات کے ساتھ ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ سپاہی سے پہلے ذمہ داران اعلیٰ افسران تھے۔ سات سال سے کسی بڑے کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔
عمران خان نے جواب دیا کہ اس ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں، عدالت جس کے خلاف کہیں گی کارروائی کریں گے۔
'عملدرآمد رپورٹ وزیرِاعظم کے دستخط سے جمع کرائی جائے'
سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ کالعدم تنظیم کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔ تو کیا ہم پھر مذاکرات کر کے سرنڈر کر رہے ہیں؟
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور فریقین گزشتہ دنوں ہی ایک ماہ کی جنگ بندی پر متفق ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ والدین کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے حکام کے خلاف کارروائی ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے حکم کے باوجود کچھ نہیں ہوا ہے۔
بعد ازاں عدالت میں وزیرِاعظم نے تمام ذمہ داران کا تعین کرنے اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے اقدامات کر کے چار ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عملدرآمد رپورٹ وزیرِاعظم کے دستخط سے جمع کرائی جائے۔ وفاقی حکومت لواحقین کا مؤقف بھی سنے۔
عمران خان کو کیوں طلب کیا گیا؟
بدھ کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیرِ اعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وہ وزیرِ اعظم عمران خان کو عدالتی حکم سے آگاہ کریں گے۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب، یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ وزیرِ اعظم کو بلائیں، ان سے خود بات کریں گے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمے داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف انکوائری رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے۔ دعویٰ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں۔ اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے ہیں۔ اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟
ازخود نوٹس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔
سانحہ اے پی ایس اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ
خیال رہے کہ سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملوں میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ان حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
اس حملے میں اسکول کے معصوم بچوں اور اساتذہ کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب کہ دھماکے بھی ہوئے تھے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
سیکیورٹی فورسز نے حملے میں ملوث چھ دہشت گردوں کو ہلاک جب کہ اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اور سہولت کاروں کو گرفتار کرنے یا مارنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
اپریل 2018 میں بچوں کے والدین نے انصاف کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو ان کی درخواست کو اس وقت کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس میں تبدیل کر دیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران بار بار والدین جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتے رہے اور اکتوبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا۔ جس کی سال 2020 میں سامنے آنے والی رپورٹ میں سانحے کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔
525 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ غداری کے سبب سیکیورٹی پر سمجھوتہ ہوا اور دہشت گردوں کا منصوبہ کامیاب ہوا جب کہ دہشت گردوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری ناقابلِ معافی ہے۔