|
اسلام آباد -- "سر میں آدھا گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں مجھے تیاری کے لیے مواد ملتا ہے نہ ہی وکلا سے ملاقات کرنے دی جاتی ہے۔ سر میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرائی جائے۔ پتا نہیں پھر مجھے آپ سے بات کرنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔"
یہ الفاظ تھے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے جو نیب ترامیم کیس میں جمعرات کو ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عمران خان کو اس کیس میں بات کرنے کا موقع ملا۔
گزشتہ سماعت پر ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں عمران خان کی ایک تصویر لیک ہوئی تھی لیکن انہیں بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔
جمعرات کے روز سماعت شروع ہوئی تو عمران خان ڈارک بلیو کلر کی ڈریس شرٹ میں ملبوس تھے۔ گزشتہ سماعت پر وہ ٹی شرٹ میں تھے۔ لیکن اس بار وہ ڈریس شرٹ میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ہاتھ میں تسبیح اور سامنے پڑی پانی کی بوتل سے عمران خان ہر کچھ دیر کے بعد پانی پیتے رہے۔
سماعت کے آغاز میں ہی اس کی لائیو اسٹریمنگ کا سوال اس وقت کھڑا ہوا جب ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے درخواست کی کہ یہ مفادِ عامہ کا کیس ہے۔ لہذا اسے براہ راست نشر کیا جائے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک آئینی معاملہ ہے اور اس کی لائیو اسٹریمنگ کی ضرورت نہیں۔ اس پر بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ایڈووکیٹ جنرل کے مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ "میرا خیال ہے کہ یہ عوامی مفاد کا کیس ہے لہذا اسے براہ راست نشر کیا جانا چاہیے۔"
اس پر چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرنے کا کہا اور کہا کہ اس بارے میں ہم ججز مشاورت کرکے فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد بینچ اٹھ گیا اور ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی۔
سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اس پر مشاورت کی ہے اور چار ایک کے تناسب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ براہ راست یہ کیس نہیں دکھایا جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
SEE ALSO: جیل میں قیدِ تنہائی میں ہوں، کرنل صاحب سب کچھ کنٹرول کرتے ہیں؛ عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہمیرے قریب موجود ایک صحافی دوست نے آہستہ سے کہا اس فیصلے سے ہی نظر آ رہا ہے کہ بینچ میں کوئی بھی فیصلہ اب چار ایک کے تناسب سے آئے گا۔
اس کے بعد حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا اور اگلے تقریباً دو گھنٹوں میں انہوں نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
'میں سوشل میڈیا دیکھتا ہوں اور اخبار بھی پڑھتا ہوں'
اس دوران مخدوم علی خان نے ایک موقع پر کہا کہ پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کر سکتی۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "میں اپنی بات کرتا ہوں، میں سوشل میڈیا دیکھتا ہوں اور اخبارات پڑھتا ہوں، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنی ایک تقریر میں بض ججز کو کالی بھیڑ کہا تھا۔"
اس پر اٹارنی جنرل کھڑے ہو گئے اور کہا کہ وزیرِ اعظم نے یہ موجودہ ججز میں سے کسی کے لیے نہیں کہا بلکہ ماضی کے حوالے سے بات کی تھی۔
اس پر جمال مندوخیل نے کہا کہ نیب قانون ان لوگوں پر لاگو ہوتا رہا جو حکومت سے باہر رہے، پھر وہی لوگ جب حکومت میں آتے ہیں تو دوسرے لوگ نیب کی زد میں آ جاتے ہیں۔
مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوئے تو اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور انہوں نے مخدوم علی خان کے دلائل کو ہی اڈاپٹ کر لیا۔
عدالت میں موجود فاروق ایچ نائیک نے درخواست کی کہ وہ بھی دلائل دینا چاہتے ہیں۔ عدالت نے ان سے سوال کیا کہ آپ کتنا وقت لیں گے جس پر انہوں نے بتایا کہ میں ایک گھنٹہ لوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے عمران خان کی اسکرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ "عمران خان صاحب آپ خود بات کرنا چاہتے ہیں یا آپ وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر انحصار کریں گے۔"
اس پر عمران خان نے چیف جسٹس کو کہا کہ "سر میں اس پر خود بات کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے لیے ایک مسئلہ ہے کہ میرے پاس اس کیس کو پڑھنے کے لیے کوئی مواد دستیاب نہیں ہے۔ یہ ملک کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔"
عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "سر جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں، آپ ان کو آرڈر کریں کہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے دیں۔ وہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے، مجھے یہاں قیدِ تنہائی میں رکھا ہوا ہے، میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں اور نہ ہی لائبریری ہے۔"
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ "آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلا سے ملاقات بھی ہو گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرڈر کردیتے ہیں کہ اب تک اس کیس میں جو بھی کاغذات جمع کروائے گئے ہیں ان کی کاپی انہیں فراہم کردی جائے۔
عمران خان نے کہا کہ کسی قانونی شخص سے معاونت تو ضروری ہے تیاری کے لیے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس قانونی مشیر سے ملنا چاہتے ہیں جس پر عمران خان نے خواجہ حارث اور لیگل ٹیم کا نام لیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ دو تین وکلا اسسٹنٹس کے ساتھ عمران خان سے ملاقات کر لیں۔
اس دوران عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ سے بات کرنے کا موقع شاید دوبارہ نہ ملے۔ آٹھ فروری کو ملک میں بڑا ڈاکا مارا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات اس وقت نہ کریں ہم ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ آپ کے پاس موجود ہیں وہ سن لیں۔
چیف جسٹس نے عمران خان سے پوچھا اس میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ تو عمران خان نے جواب دیا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان ایک سینئر وکیل ہیں انہیں ملک سے باہر جانا تھا تو انہیں ایک مقدمے میں ان کی مرضی کی تاریخ دی ہے۔
چیف جسٹس نے اس کے بعد حکم نامہ لکھوایا جس میں عمران خان کو تمام مواد فراہم کرنے اور خواجہ حارث سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔
خواجہ حارث نے عدالت سے پوچھا کہ صرف ایک ملاقات کی اجازت ہو گی جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ ہفتے میں پانچ دن ملاقاتیں کریں اور اگر آپ کو اس میں کوئی دشواری ہو تو اس میں اٹارنی جنرل آپ کی معاونت کریں گے۔ آپ اٹارنی جنرل کو جن وکلا کے ساتھ آپ جا رہے ہیں ان کے ناموں سے آگاہ کریں اور آپ کی ملاقات ہو جائے گی۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کہیں خواجہ حارث کو ہی اڈیالہ میں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ اس پر عدالت میں قہقہہ لگا اور چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کردی اور کہا کہ آئندہ تاریخ کا اعلان بعد میں کردیا جائے گا۔