پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر مارشل لا لگانے کا زمانہ گزر گیا ہے، قوم کی سوچ اس سے بہت آگے جا چکی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ایک فوجی افسر پر تنقید کا مطلب پوری فوج کو موردالزام ٹھہرانا نہیں۔ کالی بھیڑیں ہر شعبے میں ہو سکتی ہیں، سیاست کا شعبہ ہو، عدالت کا یا فوج کا، ہر جگہ اچھے برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔پاکستان کو ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔
خود پر قاتلانہ حملے میں وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ ساتھ ایک فوجی عہدیدار کا نام لینے پر فوج کے ادارے نے اپنے ردعمل میں عمران خان کے بیان کو بے بنیاد الزام قرار دیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قومی ادارے اور اس سے وابستہ افسران کو بدنام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔
فوج کے ترجمان کے دفتر سے جاری جواب کے جواب میں عمران خان نے شوکت خانم سپتال کے اندر چند صحافیوں سے گفتگو کی۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے نمائندے ضیا الرحمان نے تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سے جب سوال کیا کہ فوج میں کوئی بھی شخص اپنے افسر کے حکم کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرتا تو کیا آپ خود پر حملے میں ڈی جی آئی ایس آئی کو مورڈ الزام ٹھہرا رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ انہوں نے صرف فیصل نصیر کا نام لیا ہے۔
’’ نہیں , میں صرف (میجر جنرل) فیصل نصیر کی بات کر رہا تھا۔‘‘
عمران خان نے کہا کہ کالی بھیٹریں ہر شعبے میں ہوتی ہیں، ان کو ہٹانے سے اداروں کی ساکھ بہتر ہوتی ہے۔
"ایک بڑی غلط فہمی ہے کہ آگر آپ کسی بھی فوجی پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ فوج کے خلاف ہوگئے۔ ایسا نہیں ہے۔ اچھے برے لوگ ہر ادارے میں ہوتے ہیں، اچھے برے جج ہوتے ہیں، اچھے برے سیاست دان ہوتے ہیں، فوج کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جن کا کورٹ مار شل ہوا ہے، جو غداری کر رہے تھے۔ اس طرح کی کالی بھیڑ جس نے ظلم کیا ہے اگر آپ ان کو ہٹا ئیں گے تو فوج کاا وقار اوپر جائے گا۔ ہمارے بیس لوگوں نے پیسے لے کر الیکشنز میں اپنے آپ کو بیچا، ہم نے بیس کو نکالا، پارٹی کی کریڈیبیلٹی اوپر چلی گئی۔‘‘
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مارشل لا لگانے کے دن گزر گئے۔ پاکستان کے اندر سوچ کا عمل بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ مارشل لا نہیں لگ سکتا۔
انہوں نے ایک بار پھر دوہرایا کہ پاکستان کو ایک مضبوط فوج کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر آپ تنقید کا عنصر نکال دیں اور کہیں کہ وہ قانون سے اوپر ہیں تو یہ بات ٹھیک نہیں۔
فوج اور فوجی کی عزت کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے، حکومت بے بنیاد الزام لگانے والوں کے خلاف کارروائی کرے: آئی ایس پی آر
عمران خان گزشتہ روز لانگ مارچ کے دوران اپنے کنٹینر پر ہونے والی فائرنگ میں زخمی گئے تھے اور ان کی ٹانگوں پر گولیاں لگی تھیں۔ انہوں نے جمعے کی شام لاہور میں شوکت خانم اسپتال سے میڈیا پر نشر ہونے والی گفتگو کے دوران الزام عائد کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنائاللہ اور فوج کے میجر جنرل فیصل نصیر ان پرحملے میں ملوث ہیں۔
آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج ایک انتہائی پیشہ وراورنظم وضبط کا حامل ادارہ ہے اور اس ادارے کے اندر اندرونی احتساب کا ایک مضبوط اورانتہائی موثر نظام موجود ہے ۔ اگر، کوئی بھی باوردی اہلکار کسی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ نظام اس کا بھی محاسبہ کرتا ہے۔
فوج کے ترجمان دفتر سے جاری بیان میں خبردار کیا گیا ہے بے بنیاد الزامات کے ساتھ اگر مفادپرستی کے تحت فوج کے عہدیداروں کی عزت کوداغدار کیا گیا کیاجارہا ہے تو ادارہ بھی اپنے آفیسروں اور سپاہیوں کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ آج لگائے گئے الزامات انتہائی افسوسناک ہیں جن کی شدید الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ادارے ، اس کے سپاہیوں کو بدنام کرے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے، بیان کے مطابق، حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے جو ادارے اور اس کے عہدیداروں کے خلاف بغیر ثبوتوں کے، جھوٹے الزامات لگانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب اطلاعات و نشریات کی وزیرمملکت مریم اورنگزیب نے بھی عمران خان کی گفتگو پر ردعمل میں ایک پریس کانفرنس کی ہے اور کہا ہے کہ وفاقی حکومت سابق وزیراعظم پر قاتلانہ حملے میں کسی بھی طرح کی تحقیقات میں معاونت کے لیے تیار ہے بشرطیکہ عمران خان کود بھی ان تحقیقات میں شامل ہوں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ حملہ پنجاب میں ہوا ہے جہاں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے۔ ملزم کا اعترافی بیان بھی موجود ہے، پھر کیونکر عمران خان تین افراد پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔
عمران خان نےکیا کہا؟
جمعے کو عمران خان نے اسپتال سے خطاب میں کہا ہے کہ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی پتا تھا کہ 'انہوں' نے وزیرِ آباد یا گجرات میں مجھے مارنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم نے آرمی چیف جنرل باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جاگیں، ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر آپ ان لوگوں کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ جنرل فیصل نصیر سے استعفیٰ دلوائیں اور ان کی تفتیش کریں۔
عمران خان نے اعلان کیا کہ جیسے ہی اُن کی صحت ٹھیک ہو گی وہ اسلام آباد کی جانب احتجاج کی کال دیں گے اور عوام کے ساتھ مل کر ان تین لوگوں کے استعفے کا مطالبہ کریں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی چار لوگوں نے اُنہیں مروانے کا بند کمرے میں فیصلہ کیا تھاجس کی ویڈیو اُنہوں نے بنا رکھی ہے۔ میں نے کہہ رکھا ہے کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو یہ ویڈیو جاری کر دی جائے تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ یہ کون لوگ ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اداروں کے اندر بھاری اکثریت متنفر ہے کہ چھ ماہ سے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ معیشت ڈوب رہی ہے۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ لہذٰا لوگ تنگ ہیں۔ اسے لیے اداروں کے اندر سے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ میرے خلاف کیا سازش کر رہے ہیں۔
'معاملے کو سلمان تاثیر کے قتل جیسا رنگ دینے کی کوشش کی گئی'
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ان پر قاتلانہ حملے کو سلمان تاثیر قتل کیس کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ پہلے یہ کہا گیا کہ عمران خان نے مذہب کی توہین کی ہے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ یہ رنگ دیا جائے گا کہ ایک مذہبی انتہا پسند نے عمران خان کو قتل کر دیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 24 ستمبر کو اُنہوں نے جلسے میں جس خدشہ کا ظاہر کیا تھا ، عین اسی سکرپٹ کے مطابق وزیرِ آباد میں حملہ ہوا۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ تھا کہ عمران خان کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد اسلام آباد آئے گی، اس لیے انہوں نے میرا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا۔
خیال رہے کہ جنوری 2011 میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں اُنہی کی سیکیورٹی پر مامور پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری نے قتل کر دیا تھا۔ بعدازاں اپنے بیان میں ممتاز قادری نے کہا تھا کہ سلمان تاثیر توہینِ مذہب کے مرتکب ہوئے تھے۔ اسی لیے اُنہیں قتل کیا۔
'تین لوگوں نے وزیرِ آباد پہنچنے سے پہلے میرے قتل کا منصوبہ بنایا'
عمران خان کا کہنا تھا کہ بند کمرے میں منصوبہ بنانے والے چار لوگوں کے علاوہ الگ سے تین لوگوں نے وزیرِ آباد پہنچنے سے پہلے مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور آئی ایس آئی کے شعبہ کاؤنٹر انٹیلی جنس کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر نے اُنہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ واقعے کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی گئی، لیکن قانون سے اُوپر بیٹھے ہوئے لوگوں کا اتنا خوف ہے کہ ابھی تک مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔
عمران خان نے جنرل باجوہ سے سوال کیا کہ جو فوجی افسران انسانوں پر تشدد کرانے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی سے فوج کا وقار بلند ہو گا یہ نیچے جائے گا۔
عمران خان نے ایک بار پھر میجر جنرل فیصل نصیر پر الزام عائد کیا کہ وہ اعظم سواتی، عمران ریاض خان، جمیل فاروقی، سمیع ابراہیم، ایاز امیر جیسے سینئر صحافیوں پر تشدد میں ملوث ہیں۔
عمران خان کے ان الزامات پر افواجِ پاکستان کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا، تاہم چند روز قبل ایک نیوز کانفرنس میں افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے سابق وزیرِ اعظم کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ مارچ میں فوج سے غیر آئینی مطالبات کیے گئے تھے۔
پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا تھا کہ رات کو بند کمروں میں ملاقاتیں کی جاتی تھیں اور پھر صبح ہمیں غدار، میر جعفر اور میر صادق کے القابات سے نوازا جاتا تھا۔
'فائرنگ دو افراد نے کی'
کنٹینر پر ہونے والی فائرنگ کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان پر دو افراد نے حملہ کیا۔
عمران خان نے بتایا کہ وہ کنٹینر پر تھے، جب اُن کی جانب برسٹ فائر کیا گیا اور اُنہیں ٹانگ پر گولی لگی اور نیچے گر گئے۔
سابق وزیرِ اعظم نے بتایا کہ اس کے بعد ایک دوسر ابرسٹ آیا، یہ دو لوگ تھے۔ اگر اُنہیں دوبارہ گولی لگتی تو اُن کا بچنا مشکل تھا۔
SEE ALSO: عمران خان پر حملہ: تحریکِ انصاف کا ملک گیر احتجاج، مختلف شہروں میں شیلنگ
چیف جسٹس سے انصاف کی اپیل
سابق وزیرِ اعظم نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہ چیف جسٹس صاحب ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ آپ سے انصاف کا طلب گار ہے۔ آپ اس معاملے کا نوٹس لیں اور انصاف دلائیں۔
عمران خان نے کہا کہ جب تک یہ تین لوگ اپنے عہدوں سے استعفے نہیں دیں گے، اس وقت تک اس واقعے کی تفتیش آگے نہیں بڑھے گی۔
سابق وزیرِ اعظم بولے کہ چیف جسٹس صاحب اللہ آپ سے پوچھے گا کہ اعظم سواتی اور شہباز گل کے ساتھ ہونے والے واقعے پر آپ نے ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی تھی، لیکن ہینڈلرز کے تعاون اور پیسہ چلانے کے باعث اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب کرائی گی۔
سابق وزیرِِ اعظم کا کہنا تھا کہ اُنہیں نااہل کرانے کے لیے توشہ خانہ جیسے ہلکے کیس میں اُنہیں نااہل قرار دلوایا گیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ نظر آ رہا ہے کہ عوام نے 'امپورٹڈ حکومت' کو مسترد کر دیا ہے۔ جب بھی ضمنی الیکشن ہوتا ہے، تحریکِ انصاف کامیاب ہو جاتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر مسلم لیگ (ن) اور کسی اور کے دباؤ میں ہے، ان کے خلاف ہرجانے کا کیس دائر کروں گا۔
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے پہلے سیاست دان ہیں جو کئی نشستوں سے بیک وقت الیکشن جیتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میری کردار کشی کی گئی، ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان بھی دیگر سیاست دانوں کی طرح کرپٹ ہے۔
عمران خان کی سرجری کر دی گئی
عمران خان کی صحت سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے شوکت خانم اسپتال کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ عمران خان کی دائیں ٹانگ کے نچلے حصے میں فریکچر ہوا تھا جہاں سرجری کر دی گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم کی دائیں ٹانگ میں گولی کے چار ٹکڑے نکال دیے گئے ہیں جب کہ ایک ٹکڑا خون سپلائی کرنے والی شریان کے قریب سے ملا ہے۔ اگر شریان متاثر ہوتی تو زیادہ بلیڈنگ ہو سکتی تھی۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بائیں ٹانگ میں گولی کے دو ٹکڑے ہیں، لیکن اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔