|
اسلام آباد -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ شیخ مجیب الرحمٰن سے متعلق پوسٹ پر قائم ہیں۔ تاہم پوسٹ کے ساتھ جو ویڈیو اٹیچ کی گئی وہ نہیں دیکھی۔ لہذٰا اس پر بات نہیں کروں گا۔
عمران خان نے اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سماعت کے بعد وہاں موجود صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی۔ اس گفتگو کی تصدیق وہاں موجود دو صحافیوں نے کی ہے۔
عمران خان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے شیخ مجیب کے حوالے سے ویڈیو پوسٹ ہونے پر بات کی اور کہا کہ حمود الرحمان کمیشن بنانے کے دو مقاصد تھے۔
اُن کے بقول کمیشن بنانے کا مقصد تھا کہ ایسی غلطی دوبارہ نہ دہرائی جائے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ کو ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ اُنہوں نے اپنے اقتدار کے لیے سب کچھ کیا۔ اس وقت ملک میں دوبارہ وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے جس سے معیشت بیٹھ جائے گی۔ پہلے ملک ٹوٹا تھا اب معیشت بیٹھ رہی ہے۔
عمران خان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ میاں نواز شریف جب شیخ مجیب کا حوالہ دیتے تھے اور حمود الرحمان کمیشن کی بات کرتے تھے۔ اس وقت آپ کہتے تھے نواز شریف دوسرا مجیب الرحمان بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ اس وقت میں نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نہیں پڑھی تھی، اب میں نے یہ رپورٹ مکمل پڑھ لی ہے۔
عمران خان سے جب ان کے آفیشل ایکس ہینڈل سے ریاست کے خلاف ویڈیو پوسٹ ہونے پر سوال ہوا کہ کیا یہ پوسٹ آپ کی مرضی سے کی گئی؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ میں جیل میں بیٹھ کر ویڈیو کیسے پوسٹ کر سکتا ہوں۔
عمران خان سے سوال ہوا کہ آپ کا ایکس اکاؤنٹ کون چلاتا ہے کس کو اجازت دے رکھی ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ میں پوسٹ کا صرف اپنے وکلا کو بتاتا ہوں۔
عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی تھی جس میں 1971 میں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ اس وقت کے فوجی افسران کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
اس ویڈیو کے آخر میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تصویر استعمال کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ملک اس وقت 1971 والی صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔
اس ویڈیو کے بارے میں وفاتی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) نے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور اس میں دو بار ایف آئی اے کی ٹیم عمران خان سے بیان لینے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچی ہے۔ لیکن عمران خان نے اپنے وکلا کی عدم موجودگی میں کوئی بیان دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اسی کیس میں عمر ایوب نے اپنے وکیل کے ذریعے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی کاپی ایف آئی اے سے مانگی ہے جب کہ بیرسٹر گوہر اور رؤف حسن نے اپنے بیانات ریکارڈ کروا دیے ہیں۔
رؤف حسن نے اپنے بیان میں بتایا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ امریکہ میں موجود جبران الیاس نامی ورکر اور اظہر مشوانی چلاتے ہیں۔
'نیب ترامیم سے ملک کو نقصان ہوا'
عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے سے بھی بات کی۔ جمعرات کو عمران خان نے نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اپنے دلائل دیے تھے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں نیب نے 480 ارب روپے ریکور کیے۔ اب 1100 ارب مزید جمع ہونا تھے۔ لیکن نیب ترامیم کر دی گئی ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ جو ملک گھٹنوں کے بل ہو وہ اتنے نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کی تعریف کی اور کہا کہ سوشل میڈیا کے لوگ ہمارے ہیروز ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے میرے خلاف جھوٹا سائفر کیس بنانے پر مجھ سے معافی مانگے، ملک میں سیاسی انتقام جاری ہے۔ ایف آئی اے کو صرف وکلا کی موجودگی میں جواب دینے کا کہا ہے۔
سپریم کورٹ کی جمعرات کی سماعت میں دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ میں نے مشرف دور میں بھی شوکت عزیز سے مذاکرات نہیں کیے تھے۔ بلکہ براہ راست مشرف کے نمائندے سے بات کی تھی۔ ہم وہاں بات کریں گے جن کے پاس پاور ہے۔ موجودہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے پاس تو طاقت ہی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں جمعرات کی سماعت کے دوران ججز نے عمران خان پر زور دیا تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں سے بات چیت کریں جس پر عمران خان نے کمرۂ عدالت میں کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
اس دوران وہاں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے فاروق نائیک نے کہا تھا کہ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناء اللہ بھی مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔
جیل میں دی گئی سہولیات کے بارے میں ایک سوال پر عمران خان نے کہا کہ میں شکایت نہیں کرتا، مجھے ڈیتھ سیل والی چکی میں رکھا گیا ہے۔ میرے پاس ایکسر سائز مشین کے سوا کوئی سہولت نہیں ہے۔ روم کولر ساری چکیوں میں لگے ہیں۔ میرے سیل میں واش روم نہیں ہے اور نہانے کے لیے دوسرے کمرے میں جاتا ہوں۔
عمران خان نے کہا کہ نواز شریف اور زرداری کو قید کے دوران لگژری سویٹ دیے۔ ان کے کھانے بھی باہر سے آتے تھے جس کو چاہے مرضی ملاقات کرتے تھے۔ مجھے تو آدھا گھنٹہ وکلا کے ساتھ اور 20 منٹ فیملی کے ساتھ ملاقات کی اجازت ہے۔
اس پر ایک صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ اپنے دورِ اقتدار میں کہا کرتے تھے یہ سہولیات سب قیدیوں کو مل جائیں تو لوگ باہر سے آکر جیل میں رہنا پسند کریں گے۔ اس پر عمران خان کچھ غصہ میں آ گئے اور کہا کہ میں شکایت نہیں کرتا میں نے اب تک کوئی رعایت اور سہولت نہیں مانگی، مجھے قیدی کھانا بنا کر دیتا ہے۔
جمعرات کو وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی تھی جس میں عمران خان کو دستیاب سہولیات کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں عمران خان سے ملاقات کرنے والوں کی مکمل فہرست اور عمران خان کے کمرے، الماریوں، ٹی وی، روم کولر، کتابوں، ایکسرسائز مشین، اسٹڈی ٹیبل اور کھانے پینے کی اشیا کی تصاویر بھی شامل کی گئی تھیں۔