پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کیس کی سماعت دو اگست تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
عمران خان اپنے وکیل شعیب شاہین کے ہمراہ الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے رکن کا کہنا تھا کہ آج تو فردِ جرم عائد کی جانی ہے۔
اس پر عمران خان کے وکیل نے کہ میرے پاس ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے مہلت دینے کی استدعا کی۔ شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ وہ آج پہلی بار پیش ہو رہے ہیں۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی درخواست منظور کر لی۔
خیال رہے کہ عمران خان پر چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دیگر اراکین کو میڈیا پر دھمکیاں دینے اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن میں کیس زیرِ سماعت ہے۔
الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت دو اگست تک ملتوی کرتے ہوئے فردِ جرم عائد کرنے کے لیے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حاضری یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی۔
عمران خان خود بھی سماعت میں موجود تھے۔ سماعت کے بعد عمران خان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا وہ مزید یوٹرن لیں گے؟ جس پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یوٹرن لیتا رہوں گا۔
اس پر ان سے سوال کیا گیا کہ آپ الیکشن کمیشن سے معافی مانگیں گے؟
عمران خان نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے مجھے معافی مانگنی چاہیے۔ ان کے بقول جب میں نے کوئی غلطی کی ہی نہیں تو معافی کیوں مانگوں۔
توشہ خانہ کیس میں کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کے جج کی تبدیلی، خود گواہ کی جانب سے درخواست اور بیان حلفی پر دستخط مختلف ہونے کے اعتراض سمیت عمران خان کی جانب سے دائر دیگر درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی درخواستوں پر سماعت کی۔ سابق وزیرِ اعظم سخت سیکیورٹی میں وکلا کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے اور ان کی مالیت کم ظاہر کر کے اس کا بھی کچھ حصہ ادا کرنے کے بعد یہ قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنے کا کیس چل رہا ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ریفرنس سے لے کر فیصلے تک کا ریکارڈ طلب کرنے کی استدعا کی ہے۔
الیکشن کمیشن کے گواہ کی کمپلینٹ اور بیانِ حلفی پر دستخط مختلف ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت میں وکیل کا کہنا تھا کہ گواہ نے بیان حلفی اور کمپلینٹ پر دستخط مختلف ہونے کا اعتراف کیا ہےاور جرح میں کہا کہ ایک جگہ اس کے مختصر دستخط تھے۔ اب یا تو گواہ جھوٹ بول رہا ہے، یا پھر اس کو ہی اس کا جواز پیش کرنا ہے۔
توشہ خانہ فوجداری کیس سننے والے جج کی فیس بک پوسٹ پر کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ انہوں نے پوسٹ نہیں دیکھی۔ اگر تو وہ ٹھیک ہیں یا غلط ہیں۔ دونوں صورتوں میں اس کے اثرات ہیں۔
SEE ALSO: ترمیمی نیب آرڈیننس کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سائفر معاملے پر عمران خان کی درخواستیں، فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر معاملے پر چیئرمین پی ٹی آئی کی ایف آئی اے سے طلبی، گرفتاری سے روکنے اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران عمران خان کے خلاف درج مقدمات اور شروع کی گئی انکوائریز کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر بھی فیصلہ محفوظ کر لیا۔
علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی ایف آئی اے طلبی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیے کہ سائفر کو نیشنل سیکیورٹی کونسل نے ڈسکس کیا، پھر امریکہ سے احتجاج بھی ہوا ۔ دوبارہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں سائفر کو دوبارہ کنفرم کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر کنفرم ہوا۔ مداخلت کنفرم ہوئی۔ سابق وزیرِ اعظم کی حکومت نے ردِ عمل دیا۔ امریکہ کو پیغام دیا گیا تھا کہ ریاست پاکستان کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ وزیرِ اعظم ہاؤس بھی محفوظ نہیں ہے۔ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ کسی بھی وزیرِ اعظم کا فون ٹیپ ہونا جرم ہے ۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ریکارڈنگ بھی تو سامنے آئی تھی۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ کابینہ کی ڈائریکشن پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کابینہ ایف آئی اے کو ہدایات دے سکتی ہے؟ ان کے بقول یہ عمران خان کی بات نہیں بلکہ وزیرِ اعظم آفس کی بات کی ہے۔
شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درج مقدمات سمیت دیگر انکوائریز کی تفصیلات فراہم کرنے اور گرفتاری سے روکنے کی درخواست پر دلائل دیے۔
بعدازاں عدالت نے دونوں در خواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔