تاریخی تبدیلی، امریکی مسلمان ووٹرز ڈیموکریٹس سے دور ہونے لگے

ووٹرز مشی گن کے شہر ڈئیر بورن میں منگل،5 نومبر کواپنے بیلٹس کا انتظار کر رہے ہیں۔(اے پی فوٹو)

  • پانچ نومبر کے صدارتی انتخابات میں امریکی مسلمانوں اور عرب ووٹرز کا ڈیموکریٹس سے فاصلہ دیکھے میں آیا ہے۔
  • مشی گن کی عرب آبادیوں میں ٹرمپ اور تیسری پارٹی کے امیدواروں نے نمایاں طور پر زیادہ ووٹ حاصل کیے۔
  • امریکہ میں 37 لاکھ سے زیادہ عرب امریکن ہیں جن میں مسیحوں کی تعداد زیادہ ہے۔
  • عرب نژاد اور مسلم ووٹرز کی اکثریت گزشتہ 20 برسوں ڈیمو کریٹس کی حامی رہی ہے۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے معاملے میں بائیڈن انتظامیہ کے برتاؤ نے مسلم ووٹرز کو برہم کیا ہے۔
  • ٹرمپ کی جانب سے جنگ روکنے کے وعدوں نے مسلم ووٹرز کو ان کی جانب متوجہ کیا ہے۔

پانچ نومبر منگل کو ہونے والے امریکی انتخابات میں ایک تاریخی تبدیلی یہ دیکھنے میں آئی کہ امریکی مسلمانوں اور عرب ووٹروں نے دو عشروں سے ڈیموکریٹس کے ساتھ اپنی وفاداریاں ترک کر دیں اور ان کے زیادہ تر ووٹ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور تیسری پارٹی کے امیدواروں میں تقسیم ہو گئے۔

غزہ میں جنگ سے نمٹنے میں بائیڈن انتظامیہ کے طریقہ کار پر برہمی سے پیدا ہونے والی ڈیموکریٹس سے اس دوری نے ٹرمپ کو کانٹے کے مقابلے کی ریاستوں میں جیتنے میں مدد دی اور وہ وائٹ ہاؤس حاصل کرنے کی دوڑ میں نائب صدر کاملا ہیرس کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کی جانب سے کئے جانے والے ایک ہزار سے زیادہ ووٹروں کے ایگزٹ پول کے مطابق نصف سے بھی کم مسلم ووٹروں نے ہیرس کی حمایت کی۔ CAIR کے حکومتی امور سے متعلق ڈائریکٹر رابرٹ میکاؤ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مسلمان ووٹروں نے تیسرے فریق کے امیدوار یا ٹرمپ کو ووٹ دیا۔

میک کاؤ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ماضی میں 20 سے زیادہ برسوں میں یہ مسلم کمیونٹی کا تین امیدواروں کے درمیان تقسیم ہونے کا پہلا ایسا واقعہ ہے۔‘

صدارتی انتخابات میں مسلم ووٹرز نے نمایاں طور پر حصہ لیا اور ووٹ کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

عرب امریکن انسٹیٹیوٹ کے صدر جیمز زوگبی کا کہنا ہے کہ مسلم ووٹوں میں یہ تبدیلی عرب امریکی ووٹروں میں دکھائی دی جنہوں نے دو عشروں سے زیادہ عرصے تک ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کی حمایت کی تھی۔

زوگبی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ اس الیکشن پر نظر ڈالتے ہیں جس پر غزہ کی جنگ اثر انداز ہوئی، اس خطے سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی نے غزہ میں جو کچھ ہوتا ہوا دیکھا، اس نے ان پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ تاہم مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اس کا اتنا شدید اثر لیں گے اور اتنے زیادہ عدم اطمینان کا اظہار کریں گے۔

ایک تخمینے کے مطابق امریکہ میں تقریباً 37 لاکھ عرب امریکن ہیں، جن میں زیادہ تر مسیحی ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں مسلمان ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

مشی گن: مسلمانوں کا اکثریتی ووٹ کس امیدورار کو ملا؟

مشی گن میں عرب امریکن آبادی کے گڑھ ڈیئربورن، ڈیئربورن ہائٹس اور ہیمٹرامک میں ووٹروں میں ہونے والی یہ بغاوت سب سے نمایاں تھی۔

ریاست مشی گن کے شہرڈیئربورن میں ٹرمپ نے 42 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جہاں 55 فی صد سے زیادہ رہائشیوں کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے، جب کہ چار سال قبل ٹرمپ کے حق میں یہ شرح تقریباً 30 فی صد تھی۔ کاملا ہیرس کو اس کمیونٹی سے صرف 36 فی صد ووٹ ملے جب کہ چار سال قبل کے صدارتی انتخابات میں اسی کمیونٹی نے بائیڈن کو تقریباً 70 فی صد ووٹ دیے تھے۔

ہیمٹرامک سے، جو کہ امریکہ کا پہلا مسلم اکثریتی شہر ہے، ٹرمپ نے 43 فی صد ووٹ حاصل کیے جب کہ 2020 کے الیکشن میں انہیں یہاں سے صرف 13 فی صد ووٹ ملے تھے۔ کاملا ہیرس کو یہاں سے 46 فی صد ووٹ ملے جب کہ جو بائیڈن کو چار سال قبل اس شہر نے 85 فی صد ووٹ دیے تھے۔

گرین پارٹی کی امیدوار جل سٹین کو، جو غزہ میں اسرائیل کی جنگ کی سخت ناقد ہیں، ان دونوں قصبوں نے 20 فی صد سے کم ووٹ دیے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی انتخابات: مشی گن میں عرب، سیاہ فام اور آٹو ورکرز کے ووٹ کتنے اہم ہیں؟

ثمرہ لقمان کا تعلق ڈیئربورن سے ہے۔ وہ وہاں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلی بہت حیران کن ہے۔

ثمرہ لقمان نے غزہ کی صورت حال کے باعث اپنا سیاسی انتخاب تبدیل کرنے سے قبل، بائیڈن کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے یہ تبدیلی بہت ہی زیادہ حیران کر دینے والی ہے۔

اس سے قبل آخری بار امریکی مسلمانوں نے سن 2000 میں جارج ڈبلیو بش کی حمایت میں ریپبلکن پارٹی کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیا تھا۔

تاہم نائین الیوں کے حملوں کے بعد اب یہ صورت حال تبدیل ہو گئی ہے اور کچھ قدامت پسند مسلمانوں نے ثقافتی معاملات کے پیش نظر دوبارہ ریپبلکن پارٹی کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔

ثمرہ لقمان کہتی ہیں کہ غزہ جنگ پر برہمی نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ الیکشن میں اس واقعہ نے ڈیموکریٹس کے تابوت میں کیل ٹھونک دی۔

تاہم کچھ ماہرین اس کا سبب مسلم ووٹروں کے معاملے میں کاملا ہیرس کی ناقص کارگردگی کو قرار دیتے ہیں۔ کرسٹوفرنیوپورٹ یونیورسٹی کے پروفیسر یوسف شہود کہتے ہیں کہ ووٹ ڈالے جانے سے متعلق ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نائب صدر کاملا نے مجموعی طور پر 63 فی صد مسلم ووٹ حاصل کیے جو کہ 2000 میں صدر بائیڈن کو اس کمیونٹی کی جانب سے ملنے والے ووٹوں سے معمولی سے کم ہیں۔

انسٹیٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ (ISPU) کے ڈائریکٹر ریسرچ ساحر سلود کا کہنا ہے کہ ڈیئر بورن کا معاملہ الگ ہے۔ میرے خیال میں ہمیں انتظار کرنے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک بھر میں مسلمان ووٹروں کے بڑے رجحانات کیا ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

شکست تسلیم، مقصد کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے، کاملا ہیرس

تاہم پھر بھی ٹرمپ نے مسلم ووٹروں تک قابل توجہ رسائی حاصل کی ہے۔ انہوں نے 2020 کے الیکشن میں 35 فی صد مسلم ووٹ حاصل کیے تھے اور اس بار ان کی جانب سے غزہ تنازع ختم کرنے کے وعدے کے ذریعے انہوں نے مسلم اور عرب ووٹروں کو فعال انداز میں اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے ہیمڑامک کا دورہ کیا تھا اور اس شہر کے مسلم میئر نے ان کی حمایت کی تھی۔

ایک بنگلہ دیشی امریکی عاصم کمال رحمان کا، جنہوں نے 2021 میں میئر کا انتخاب لڑا تھا اور ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے، کہنا ہے کہ ٹرمپ کی کوشش رائیگاں نہیں گئی۔

ثمرہ لقمان کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی جانب سے امن کے پیغام نے بہت سے ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال ٹرمپ نے کئی بار امن کی بات کی جس سے یہ چیز نمایاں ہو کر ابھری کہ وہ جنگ روکنا چاہتے ہیں۔

جب کہ غزہ کی جنگ مسلم امریکیوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ تھا اور کئی سرگرم کارکنوں اور ووٹروں کے مطابق کھانے پینے کی مسائل نے بھی انہیں کاملا ہیرس سے دور کر دیا۔

ڈیئربورن کے ایک ڈیٹا اینالسسٹ ناگی المودھیکی کہتے ہیں کہ میں حکومتی عہدوں پر ایسے لوگوں کو دیکھنا چاہتا ہوں جو سب سے پہلے ملک کے اندر امریکیوں کے مسائل حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔

موسم گرما کے دوران ISPU کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ غزہ کے تنازع اور غیرملکی جنگیں ختم کرانے کے بعد زیادہ تر مسلم ووٹروں کے لیے معشیت تیسرا اہم تریں مسئلہ تھا۔

SEE ALSO: عرب رہنماؤں کو ٹرمپ سے کیا توقعات ہیں؟

ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ’سینٹر آف مسلم ایکسپیرینس ان دی یو ایس‘ کے شریک ڈائریکٹر چاڈ ہینز کہتے ہیں کہ مسلمان بھی کسی دوسری کمیونٹی کی طرح یہ چوٹ محسوس کر رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ مسلم کمیونٹی کے مخصوص نوعیت کے مفادات اور خدشات کے بعد یہ ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ہینز ایک نو مسلم ہیں اور انہوں نے کاملا ہیرس کو ووٹ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان انتخابات نے مسلمان امریکی کمیوٹنی کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ جو ڈیموکریٹس کو غزہ کے معاملے پر پیغام بھیجنا چاہتا تھا اور دوسرا وہ جو ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے خوف زدہ تھا۔

ہینز نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ایک گروپ خوش ہے کہ اس نے ڈیموکریٹس کو جھٹکا پہنچایا ہے اور دوسرا اگلے چار برسوں کے لیے بہت فکر مند ہے۔