پاکستان میں ٹیکسٹائل ملز مالکان کی نمائندہ تنظیم 'آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن' (اپٹما) پنجاب کے صدر کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد ٹیکسٹائل ملز چلانا ممکن نہیں ہے۔
اپٹما پنجاب کے صدر عادل بشیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے متعین کردہ نئے ٹیرف پر ٹیکسٹائل ملز کی اکثریت چل ہی نہیں سکتی۔ لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ پچھلے سال کے بجلی کے بل بھی ادا کریں۔
یاد رہے کہ رواں سال 13 جنوری کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق حکومت نے فلیٹ ریٹ سات اعشاریہ پانچ سینٹ برقرار رکھا ہے اور اس کے علاوہ مختلف اقسام کے سرچارجز اور ٹیکسز عائد کرتے ہوئے بجلی کی فی یونٹ قیمت اضافے کے بعد 13 سینٹ طے کر دی ہے۔ یہ اضافہ نا صرف مستقبل کے لیے بلکہ جنوری 2019 سے استعمال کی گئی بجلی کی ادائیگیوں پر بھی لاگو ہو گا۔
عادل بشیر کہتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے گزشتہ سال یکم جنوری سے اس وقت کے ڈالر ریٹ کے مطابق سات اعشاریہ پانچ سینٹ فی کلو واٹ فی گھنٹے کا فلیٹ ریٹ طے کیا تھا جو آج 11 اعشاریہ پانچ روپے بنتا ہے۔ اُس وقت یہ ریٹ اکتوبر 2018 سے لاگو کیا گیا تھا۔
عادل بشیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے پچھلے سال ریٹ طے کیے جانے کے بعد بند ہو جانے والی کچھ ٹیکسٹائل ملز نے بھی کام شروع کر دیا تھا اور پچھلے سال ٹیکسٹائل برآمدات میں 32 فی صد اضافہ ہوا۔
اپٹما پنجاب کے چیئرمین نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے نیا ٹیرف لاگو کیے جانے کے بعد نئے نرخوں کے مطابق بلز کی وصولی شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا اطلاق جنوری 2019 سے کیا گیا ہے اور گزشتہ سال کی رقم کو بھی اقساط کی صورت میں نئے بلوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔
عادل بشیر کا کہنا تھا کہ حکومت اب کیسے کہہ سکتی ہے کہ ہم نے پچھلے سال آپ کو فلیٹ ریٹ دیا تھا اور اس وقت ہم سرچارجز لگانا بھول گئے تھے؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش، چین اور بھارت سے مقابلہ کرنا ہے جہاں ٹیرف سات سے نو سینٹ فی یونٹ ہے۔ اگر حکومت ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دو گنا نرخوں پر بجلی فراہم کرے گی تو وہ کیسے دوسرے ممالک سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ عادل بشیر نے کہا کہ انڈسٹری بالآخر بند ہو جائے گی۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات
عادل بشیر کے مطابق 70 فی صد ٹیکسٹائل انڈسٹری پنجاب میں ہے اور اس انڈسٹری سے لگ بھگ ایک کروڑ 50 لاکھ افراد بلاواسطہ یا بلواسطہ منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیرف میں اضافے کے بعد کئی ٹیکسٹائل ملز ایک سے دو ماہ میں بند ہو جائیں گی جس سے تقریباً پانچ لاکھ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ٹیکسٹائل کی برآمدات بھی پانچ سے 10 فی صد تک متاثر ہو سکتی ہیں۔
اپٹما نے وزیرِ اعظم عمران خان کو رواں ماہ 24 فروری کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل برآمدات کو بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر جنوری 2019 سے لاگو کیے گئے اضافی ٹیرف واپس نا لیے گئے تو ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلنے کا خدشہ ہے۔
ادھر وفاقی سیکریٹری برائے 'انرجی پاور ڈویژن' عرفان علی کہتے ہیں کہ حکومت برآمدات کرنے والی انڈسٹری کی ترقی چاہتی ہے۔ اسی لیے حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو سات اعشاریہ پانچ سینٹ کا سبسیڈائزڈ ٹیرف دیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عرفان علی نے کہا کہ ٹیکسٹائل ملز کو جنوری 2019 تک یہ رعایتی ٹیرف دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد جو اخراجات آئے، اس کی تفصیلات پاور ڈویژن نے اکنامک کو آرڈینیشن کمیٹی کے سامنے رکھی گئیں۔
عرفان علی کا کہنا تھا کہ حماد اظہر کی سربراہی میں بنائی گئی ایک کمیٹی نے طے کیا کہ سال 2019 میں ہونے والے اضافی اخراجات ٹیکسٹائل ملز کے ذمے ڈالے جائیں گے۔
عرفان علی نے کہا کہ رواں ہفتے منگل کو ہونے والی کابینہ کی میٹنگ میں اس مسئلے پر بحث ہوئی تھی اور چونکہ وزیرِ اعظم عمران خان کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بہت فکر ہے۔ لہٰذا انہوں نے بجلی کے نرخوں میں اضافے پر بات چیت کی ہے۔
ان کے بقول بدھ کو وزیر برائے توانائی، وزیر برائے خزانہ اور وزیر برائے کامرس کی اپٹما کے نمائندگان سے میٹنگز بھی ہوئی ہیں تاکہ حکومت اس مسئلے کا کوئی صحیح حل نکال سکے۔
ٹیکسٹائل ملز پر جنوری 2019 سے لگائے گئے اضافی سرچارجز کے بارے میں عرفان علی کا کہنا تھا کہ اصل ٹیرف سات اعشاریہ پانچ سینٹ ہی ہے اور اس پر لگائے گئے چارجز نیپرا کی طرف سے ہر تین ماہ بعد لاگو کردہ ہیں۔
ان کے بقول سال 2019 میں ادائیگیوں کا مسئلہ سپریم کورٹ میں گیا تھا اور سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ حکومت ٹیکسٹائل ملز سے اضافی ادائیگیاں حاصل کر سکتی ہے۔