ویب ڈیسک۔بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں گزشتہ سال دسمبر میں دونوں اطراف کے فوجیوں میں جھڑپ ہوئی تھی۔ اس علاقے پر چین بھی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ یہ علاقہ مغربی ہمالیائی خطے میں واقع لداخ سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے جہاں 2020 میں مہلک جھڑپوں کے نتیجے میں موجودہ تعطل کا آغاز ہوا تھا۔
چین نے اروناچل پردیش میں گزشتہ ماہ 11 مقامات کے نام چینی زبان میں تبدیل کر دیے۔ وہ اس علاقے کو جنوبی تبت کہتے ہیں - چھ برسوں کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ چین نے علاقے کے پہاڑوں، دریاؤں اور دیگر مقامات کے لیے نئے نام جاری کیے ہیں۔
بھارت نے اس اقدام کو مسترد کیا ہے۔ تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ زنگرام (اروناچل پردیش) چین کا حصہ ہے اور علاقے میں مقامات کا نام رکھنامکمل طور پر چین کی خودمختاری کے دائرہ کار میں تھا۔‘‘
یہ ایک ایسا حربہ ہے جو چین نے ایشیا کے دیگر حصوں میں متنازعہ علاقوں پر اپنے دعوے کو تقویت دینے کے لیے استعمال کیا ہے ۔ اس نے بحیرہ جنوبی چین اور مشرقی بحیرہ چین کے مقامات کے نام بھی تبدیل کیے ہیں۔
SEE ALSO: چینی وزیر دفاع کا دورۂ بھارت: کیا دو طرفہ تعلقات میں کوئی پیش رفت ممکن ہے؟نئی دہلی میں تجزیہ کار اسے چین کی طرف سے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں تدریس اور خارجہ پالیسی (شعبے ) کے نائب صدر ہرش پنت کے مطابق ’’ چین کے اروناچل پر جارحانہ موقف اختیار کرنے کے ساتھ یہ خدشات موجود ہیں کہ چین بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ بھارت کو اس تنازعہ کے کچھ حصوں کو حل کرنے کے لیے آمادہ کیا جاسکے۔‘‘
چین نے اپنے سرحدی علاقوں میں جس تیز رفتاری سے فوجی اور شہری دونوں طرح کے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دی ہے اسی طرح بھارت ریاست میں سرنگیں، سڑکیں اور پل تعمیر کر رہا ہے ۔
بھارت کے اہم منصوبوں میں سے ایک اروناچل پردیش میں تقریباً چار ہزار میٹر کی بلندی پر پہاڑوں کے درمیان سے ایک سرنگ تیار کرنا ہے تاکہ سرحدی علاقوں میں فوج کی نقل و حرکت کو آسان بنایا جا سکے۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گزشتہ ماہ اروناچل پردیش کے دورے کے دوران شمال مشرق میں تقریباً تین ہزار سرحدی بستیوں کی ترقی کے لیے 570 ملین ڈالر مالیت کے پروگرام کی نقاب کشائی کی۔ اس منصوبے کا مقصد سرحدی تحفط کو مزید بہتر بنانا ہے۔
چین کی جانب سے سرحد کے اطراف میں سرحدی بستیوں کو ترقی دینے کے حوالے سے نئی دہلی میں تشویش پائی جاتی ہے۔بریگیڈیئر این ایم بینڈیگیری نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’’چین جسے وہ ’’شیاؤکانگ‘‘ دیہات یا ماڈل دیہات کہتا ہے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ہماری سرحدوں کی مخالف سمت پر ہیں۔ سرحدی علاقوں سے ان کی قربت اور انداز تعمیر کی وجہ سے ہمیں تشویش ہے۔ ہم اس امکان کو خارج نہیں کر سکتے کہ یہ پیپلز لبریشن آرمی کے زیر استعمال ہوں۔‘‘
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپریل میں کہا تھا کہ ’’ہماری پالیسی واضح ہے کہ ہم سب کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔ تاہم کوئی بھی ہماری زمین کے ایک انچ حصے پر بھی قبضہ نہیں کر سکے گا۔‘‘
بھارت نے اپنی مسلح افواج کو جدید بنانے کے پروگرام کو بھی تیز کر دیا ہے ۔ اس میں امریکہ سے حملہ آور ہیلی کاپٹر اور روس سے میزائل ڈیفنس سسٹم کا آرڈر بھی شامل ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کو بھارت پر خاصی فوجی برتری حاصل ہے، لیکن بھارتی فوجی طویل عرصے سے کشمیر میں پاکستانی فوجیوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں۔ اس لیے بلندی پر لڑی جانے والی جنگ کا زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کے وعدے پر بتایا کہ ’’ چین کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ساتھ کی جانے والی جنگ میں برتری حاصل ہے۔ وہ ڈرون اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل جیسے مزید ہتھیارفراہم کر سکتا ہے۔ ہم اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن بھارت کے لیے چین کی صلاحیتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
اعلیٰ سطح کے سیاسی اور عسکری مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کیونکہ دونوں ممالک تنازع کے حل کے لیے مختلف موقف رکھتے ہیں۔بھارت کا اصرار ہے کہ چینی فوجیوں کو ان پوزیشنوں پر واپس جانا چاہئے جن پر وہ 2020 میں کیے گئے قبضے سے پہلے موجود تھے اور جب یہ بحران شروع ہوا تھا۔ دوسری جانب چین سرحد پر صورت حال کو ’’ عمومی طور پر مستحکم‘‘ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں ایک علاقائی فورم کے موقع پر بھارت اور چین کے وزرائے دفاع کی ملاقات کے دوران مشترکہ رائے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بیجنگ پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے تعلقات کی بنیاد ہی کو ختم کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک سرحدی تنازع حل نہیں ہوتا تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آ سکتی۔ ان کے چینی ہم منصب لی شانگ فو نے بھارت سے طویل مدتی نقطہ نظر اختیار کرنے اور ’’ سرحدی صورت حال کو جلد از جلد معمول پر لانے کے اقدام کو فروغ دینے ‘‘ کا مطالبہ کیا۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن میں اسٹڈیز اور خارجہ پالیسی (شعبے ) کے نائب صدر ہرش پنت کے مطابق ’’ نئی دہلی کے نقطہ نظر سے بھارت کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ چین مخلصانہ طور پر اسے چین۔بھارت تعلقات کے لیے ایک مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ چین کی جانب سے سرحدی صورت حال کو یک طرفہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ نیا معمول اب یہی ہے ۔ (اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ) مجھے نہیں لگتا کہ بھارت اسے قبول کرے گا۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ’’ یہی وجہ ہے کہ اگر چہ فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت جاری ہے۔ تاہم وسیع تر تعلقات کا معاملہ تعطل کا شکار ہے اور بھارت نے اس میں پیش رفت کی ذمہ داری چین پر ڈال رکھی ہے۔‘‘
SEE ALSO: نریندرمودی 22 جون کو امریکہ کا سرکاری دورہ کریں گےفوجی کمانڈروں کے درمیان مذاکرات کے متعدد ادوار کے بعد گزشتہ دو برسوں میں فوجی چار متنازع مقامات سے ہٹ چکے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی یہ بہت محدود پیشرفت ہے۔ ہرش پنت کہتے ہیں کہ ’ ’ ان مقامات سے ہٹنے کے باوجود فورسز کی موجودگی میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے صرف ایک قدم پیچھے ہٹ کر ایک بفر زون بنا دیا ہے۔‘‘
ہمالیائی خطے میں اس نوعیت کا اتار چڑھاؤ بھارت کو امریکہ کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک اتحاد کی طرف لے جا رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ ماہ ایک سرکاری دورے پر واشنگٹن جائیں گے جس کے بارے میں بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کرے گا۔
( انجنا پسریچا، وی او اے نیوز)