بھارت میں حکومت افراط زر کی اونچی سطح کو نیچے لانے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کررہی ہے۔ ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر افراط زر پر جلد قابو نہ پایا گیا تو خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ملکی معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کے سلسلے میں بدھ کو دوسرے روز بھی اپنی کابینہ کے وزیروں سے ملاقاتیں جاری رکھیں۔
بھارت میں گذشتہ سال کے مقابلے میں خوردونوش کی قیمتیں پچھلے سال کے مقابلے میں 18 فی صد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔
ان دنوں گذشتہ دوہفتوں کی نسبت پیاز کی قیمتیں دگنی ہیں اور اسی طرح دوسری سبزیوں اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کا گراف بھی بڑھ گیا ہے۔
پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئر مین مونتک سنگھ اہلووالیا کو توقع ہے کہ آنے والے ہفتوں میں افراط زر کی شرح کم ہوجائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں پہلے ہی متعدد اقدامات کرچکی ہے اور مزید اقدامات پر غور کررہی ہے۔ فروری کے مہینے میں عام ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں ہم یقینی طورپر کمی دیکھیں گے۔
بھارت میں بالخصوص پیاز کی قیمتوں میں بڑےپیمانے پر اضافےسے عوام کی ناراضگی بڑھی ہے اور اس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات سے فی الحال قیمتوں کو نیچے لانے میں کوئی زیادہ مدد نہیں ملی ۔ ان اقدامات میں پاکستان سےپیاز کی درآمد شامل ہے۔ جب کہ حکومت ذخیرہ انددوزی روکنے کے لیے پیاز کے تاجروں کے گوداموں پر چھاپے بھی ماررہی ہے۔
بھارت میں خورارک کی قیمتیں ، جہاں 80 کروڑ سے زیادہ افراد کو روزانہ دو ڈالر سے بھی کم پر اپنی گذربسر کرنی پڑتی ہے، ایک حساس معاملہ ہے ۔ اگلے برس کئی اہم ریاستوں میں ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں جس کی وجہ سے حکومت اس دباؤ میں ہے کہ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء کی مناسب نرخوں پر فراہمی جاری رہے۔
تاہم کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی حکومتی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں ۔ تازہ ترین اعدادو شمار یہ ظاہر کررہے ہیں کہ نومبر میں صنعتی پیداوار نمایاں کمی کے بعد 2.7 فی صد کی سطح پر آگئی ،جو گذشتہ چھ مہینوں کی کم ترین سطح ہے۔ وزیر خزانہ پرناب مکھرجی کا کہناہے کہ اونچی قیمتیں اور مصنوعات کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل توجہ طلب ہیں۔
ان کا کہناہے کہ اگر صنعتی پیداوار گرتی اور افراط زر بڑھتا ہے تو اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن میں اس سلسلے میں قبل ازوقت کوئی نتیجہ اخذ کرنا نہیں چاہتا۔ ہمیں اس پر نظر رکھنے اور اس مسئلے کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ان خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ مرکزی بینک افراط زر سے نمٹنے کے لیے سود کی شرح بڑھا سکتا ہے۔ گذشتہ برس بھارت میں سود کی شرح میں چھ بار اضافہ کیا گیاتھا۔
معاشی ماہرین کا کہناہے کہ افراط زر میں مزید اضافہ اقتصادی ترقی کی رفتار کم کرسکتا ہے جواس وقت تقریباً نو فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔