بھارت میں کسانوں نے تقریباً ایک دہائی قبل ایک خام اناج اگانا شروع کیا جس میں فولاد اور جست کے اجزا پائے جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس اناج سے خواتین اور بچوں میں خون کی کمی کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا۔
2018 سے افریقہ میں بھی اس اناج کو کاشت کیا جارہا ہے۔ اب تک لاکھوں لوگ اس اناج کا استعمال کررہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس اناج کی کم مقدار سے بھوک مٹائی جا سکتی ہے۔
بھارت اور افریقہ کے خشک سالی کے شکار علاقوں میں موتی باجرا کی فصل طویل عرصے سے دیہی برادریوں کی خوراک کا بڑا حصہ ہے۔ یہ اناج اگرچہ پیٹ تو بھردیتا ہے لیکن اس میں اہم وٹامنز اور معدنیات کی کمی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں لوگ متوازن غذا حاصل نہیں کر پاتے اور ان کی بھوک پوری طرح ِمٹتی نہیں بلکہ دبی رہتی ہے۔
حیدرآباد شہر میں مقیم ایک زرعی سائنس دان مہلنگم گووندراج ،واشنگٹن میں قائم ہارویسٹ پلس، الائنس آف بائیو ڈائیورسٹی انٹرنیشنل، اور انٹرنیشنل سینٹر فار ٹراپیکل ایگریکلچر سے منسلک ایک سینئر سائنس دان ہیں ۔ انہوں نے غذائی اجزاء کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وٹامنز اور معدنیات کے ساتھ اہم فصلوں کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔
SEE ALSO: آب و ہوا کی تبدیلی سے خشک سالی کے واقعات 20 گنا بڑھ گئے ہیںگووندراج نے وی او اے کو بتایا کہ ان اجزاء سے بھرپور ایک طاقتور موتی باجرا تیار کرنے میں تقریباً ایک دہائی کی تحقیق لگی،اور اب یہ فصل بھارت اور افریقہ میں لوگوں کی بھوک اور غذائیت کو احسن طریقے سے پورا کر رہی ہے۔
انکی اس گراں قدر تحقیق اور دریافت پر، 19 اکتوبر کو ،ورلڈ فوڈ پرائز فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں 2022 کے نارمن ای بورلاگ ایوارڈ سے نوازا جائے گا ۔
کاشتکاری کا پس منظر رکھنے والے گووندراج کو معلوم تھا کہ کسان کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اس کا پودا مختصر مدت میں بڑا ہو جائے ، یہ زیادہ پیداوار دینے والی قسم ہو اور اناج کا رنگ اچھا ہونا چاہیے، کیونکہ دوسری صورت میں کسان اسے نہیں اگائیں گے۔
فولادی طاقت رکھنے والے موتی باجرے کے بیج، کو دھانا شکتی" کہا جاتا ہے۔یہ بیج سب سے پہلے بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں کسانوں کو دیا گیا۔ بیج کمپنیاں ، اسے مقبول بنانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر والی وین پر گاؤں گاؤں جا کر ،کسانوں کو اس کے استعمال پر راغب کرتی تھیں ۔
SEE ALSO: افریقہ میں خشک سالی ، پاکستان میں سیلاب, ہر جگہ ماحولیاتی تبدیلی کےاثرات واضح ہیں: بلنکنلیکن اب، تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب کسان بھارت کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں "باجرا" کے نام سے مشہور یہ اناج اگاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق، 2024 تک، نوے لاکھ کے قریب لوگ اس اناج سے بنی روائیتی روٹی کھائیں گے۔
ماہرین کے مطابق اس اناج کے 200 گرام کا استعمال ،خواتین کو روزانہ مطلوب فولادی قوت کا تقریباً 80 فیصد فراہم کرتا ہے۔ اس طرح ایک ایسے ملک میں جسم کو ضروری معدنیات کا یہ ایک ایسا سستا ذریعہ ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 60 فیصد بچے اور نصف سے زائد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
پچھلے چار سالوں میں، مغربی افریقہ کے ساحل یان زون کے خشک سالی کے شکار علاقوں کے ملکوں ،نائیجر اور سینیگال کے کسانوں نے بھی لوہے کی طاقت سے بھرپور موتی جوار کو اگانا شروع کر دیا ہے جسے "چھاکتی" کہا جاتا ہے۔
موہالی، انڈیا میں نیشنل ایگری فوڈ بائیوٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کی مونیکا گرگ کا کہنا ہے کہ اگر فصل میں غذائی اجزاء شامل کیے جائیں تو یہ عوام تک آسانی سے پہنچ جاتی ہے اور سستی بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ مصنوعی سپلیمنٹس دینا ممکن ہے، لیکن دیہات کے غریب لوگوں کے لئے انہیں خریدنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے اس نئی فصل کی مقبولیت بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ آنے والی نسل کے لیے بہتر غذائیت فراہم کرتی ہے اور لاگت بھی بہت کم ہے ۔