|
ویب ڈیسک — بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں دس برس بعد ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔
تین مرحلوں میں ہونے والے انتخابات کے لیے بدھ کو پہلے مرحلے میں 24 حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔
جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 119 ہے تاہم 90 نشستوں پر براہِ راست انتخاب ہونا ہے جس کے لیے 900 سے زائد امیدوار میدان میں ہیں۔
اسمبلی انتخابات کے لیے 88 لاکھ تین ہزار رجسٹرڈ رائے دہندگان ووٹ کے حق کا استعمال کریں گے۔
جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پانچ مخصوص نشستیں ہیں جب کہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے مختص ہیں۔
پانچ اگست 2019 کو بھارتی آئین کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو حاصل نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد پہلی بار ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہو رہے ہیں۔
طویل عرصے بعد ہونے والے انتخابات کی وجہ سے ووٹرز غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کئی پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹروں کی لمبی قطاریں دیکھی گئی۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اسمبلی الیکشن کے موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ووٹرز پر زور دیا کہ وہ بڑی تعداد میں گھروں سے نکلیں اور جمہوریت کے فیسٹیول کو مضبوط بنائیں۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق انتخابات کے پہلے مرحلے میں 24 نشستوں پر 219 امیدوار مدِ مقابل تھے جہاں 23 لاکھ 27 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز کے لیے تین ہزار 276 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے۔
کمیشن کے مطابق ہر پولنگ اسٹیشن کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گیے تھے جب کہ انتخابی مرکز کے آس پاس بھی مسلح حفاظتی دستے چاک و چوبند تھے۔
انتخابات کا دوسرا مرحلہ 25 ستمبر اور تیسرا اور آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو ہو گا جب کہ آٹھ اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان ہو گا۔
انتخابات کے بعد حکومت کے قیام کے باوجود بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیکیورٹی اور گورنر کی تعیناتی جیسے اہم فیصلے نئی دہلی کے ہاتھ میں رہیں گے۔ ریاستی اسمبلی سے منظور ہونے والے قانون کو پلٹنے کا اختیار بھی نئی دہلی کے پاس رہے گا۔
یاد رہے کہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے آخری انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔
جون 2018 میں علاقائی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد ریاست کے گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس طرح اسمبلی چھ سال کی مقررہ مدت پوری نہیں کرپائی تھی۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔