بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی حکمراں نیشنل کانفرنس پارٹی کے ایک سینئر لیڈراور صوبائی حکومت میں دیہی ترقی، پنچائت راج اور پارلیمانی امور کے وزیر، علی محمد ساغر پرہفتے کے روز ایک قاتلانہ حملہ ہوا، جِس میں وہ بال بال بچ گئے۔
مسلح افراد نے اُن پر یہ حملہ اُس وقت کیا جب وہ دارالحکومت سری نگر کے پرانے علاقے سے اپنے آبائی گھرکی طرف جارہے تھے، جہاں اُن کی بھتیجی کی منگنی کی رسم ادا کی جارہی تھی۔
حملہ آوروں نے، جِن پر عہدے داروں نے مسلمان عسکریت پسند ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے، علی ساغر کو لے جانے والی گاڑیوں کے کاروان پر خو د کار ہتھیاروں سے دھاوا بول دیا۔علی ساغر خود تو بال بال بچ گئے، لیکن اُن کے تین ذاتی محافظ اور ایک راہگیر زخمی ہوگئے۔محافظ، گلزار احمد بعد میں اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاگر چل بسا۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ علاقے کو گھیرے میں لے کر حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم، فوری طور پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
اُنھوں نے اِس حملے کے لیے مسلمان عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تاہم، بھارتی کشمیر میں سرگرم کسی بھی عسکری تنظیم نے تاحال ذمہ داری قبول نہیں کی ۔
وزیر پر یہ حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا جب مختلف سیاسی جماعتوں، جِن میں حکمراں نیشنل کانفرنس بھی شامل ہے، کی طرف سے بھارتی کشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں سے نافذ ایمرجنسی قوانین، جِن میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ بھی شامل ہے، کو واپس لینے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اِن قوانین کے تحت مسلح افراد کو شورش کو دبانے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ خود صوبائی وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ بھی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ اِن قوانین کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔لیکن، بھارتی فوج اِس کی مزاحمت کر رہی ہے۔
علی ساغر پر حملے کے فوراً بعد، عمر عبداللہ نے سماجی ویب سائٹ ’ٹوٹر‘ پر اپنے ناقدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں استفسار کیا: ’کوئی بےوقوف یہ کیوں نہیں کہتا کہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ علی ساغر پر ہونے والے اِس حملے کو کیوں نہیں روک سکا؟‘