مقبول بٹ کو 11فروری 1984ءکو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ اُنھیں 1960ء کی دہائی کے دوران وادی کشمیر کے بومیل علاقے میں ایک بھارتی انٹیلی جنس افسر امر چند کو قتل کرنے کے الزام میں سری نگر کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنا دی تھی۔
سزا سنانے والے جج نیل کٹ گُنجو کو بھارتی کشمیر میں 20برس قبل شروع کی گئی مسلم تحریک کے ابتدائی دِنوں میں سری نگر کے ایک بھرے بازار میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
مقبول بٹ کی برسی پر وادی کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی جب کہ نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے جِٕن کے دوران قوم پرست لیڈر کی باقیات کو کشمیر لانے کا مطالبہ دہرایا گیا۔
اُنھیں تختہ دار پر چڑھانے کے بعد مقبول بٹ کو تہاڑ جیل کے احاطے ہی میں سپردِ خاک کردیا گیا تھا۔ کشمیر بار کونسل نے بھی اِسی مطالبے کو لے کر آج جمعے کو عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
بار کونسل کے ایک ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ بین الاقوامی قوانین اور دوسرے مسلمہ ضابطوں کے تحت بھارتی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مقبول بٹ کی باقیات کو لوٹا دے۔
سری نگر کے معصومہ علاقے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مقبول بٹ کی برسی کے موقعے پر بیشتر کشمیری آزادی پسند لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو یا تو اُن کے گھروں میں نظربند کیا گیا تھا یا پھر جلسے جلوسوں کے دوران حراست میں لیا گیا۔