یہ نقاب پوش نوجوان بھارت کی ریاست جموں و کشمیر میں بغاوت کی علامت ہیں۔ ان نوجوانوں کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان ہیں اور یہ اپنے چہرے چھپانے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہیں بھارت کی طرف سے مقدمے چلائے جانے کا ڈر ہے ۔ یہ سب بھارت سے آزادی کے علمبردار ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے نوجوان کشمیری شامل ہو جاتے ہیں جو بھارتی سیکورٹی فورسز پر پتھر برساتے ہیں۔
احتجاجی مظاہرے جن میں سکیورٹی فورسز پر پتھر پھینکے جاتے ہیں جون کے بعد سے بہت بڑھ گئے ہیں۔ جون میں پولیس کے آنسو گیس کے ایک گولے سے ایک نوجوان کشمیری ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک سو سے زیادہ کشمیری اپنی جانیں دے چکے ہیں۔کشمیر کے 63 سال پرانے جھگڑے کا یہ تازہ ترین باب ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں پورے کشمیر کے دعوے دار ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسند کہتے ہیں کہ انہیں تشدد ترک کیے دس برس سے زیادہ عرصہ ہو گیا اور علیحدگی پسندی کی تحریک بنیاد ی طور پر پُر امن ہے ۔ پتھر پھینکنے والے نوجوان کہتے ہیں کہ وہ پُر امن طریقے سے مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت انہیں کچلنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرتا ہے ۔ ایک نوجوان اپنے زخم دکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ پولیس نے اس کا نشانہ لیا اور دو بار گولی چلائی۔
بھارتی فوج اور پولیس کو ایمرجنسی کے قوانین کے تحت جن کا اطلاق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پر ہوتا ہےقانون سے استثنیٰ حاصل ہے ۔ پولیس کے چیف شِو مُراری سہائے کہتے ہیں کہ پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم طاقت استعمال کی جائے لیکن احتجاج کرنے والے جو لوگ تشدد پر اکساتے ہیں پولیس ان پر گولی چلانے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ’’میرے خیال میں دنیا میں کہیں بھی اس قسم کے تشدد کو قبول نہیں کیا جائے گا جو یہاں پُر امن مظاہروں کے نام پر ہو رہا ہے‘‘ ۔
سہائے وہی بات کہتے ہیں جو بھارت ایک عرصے سے کہتا رہا ہے کہ مسلمان اکثریت والے اس علاقے میں ایک چھوٹی سی اقلیت اس قسم کی بد امنی کو ہوا دیتی ہے ۔ سہائے کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو عسکریت پسند اور علیحدگی پسند تنظیموں نے بھرتی کر لیا ہے تا کہ کشمیر میں ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے گویا حالات بالکل قابو سے باہر ہو چکے ہیں جب کہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
لیکن بہت سے لوگ جو باتیں بتاتے ہیں وہ اس سے مختلف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بھارت کا رویہ قابض طاقت کا سا ہے اور لوگوں میں اس کے خلاف ناراضگی عام ہے ۔ یہ ایک آسٹریلوی خاتون ہیں جو اپنے کشمیری شوہر کے ساتھ یہاں آئی ہیں تا کہ اپنے بچوں کو کشمیری روایات سکھا سکیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ کرفیو اتنا سخت ہے کہ عام زندگی گذارنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ ’’کبھی کبھی کرفیو انتہائی سخت ہوتا ہے۔ سڑکوں پر خار دار تار بچھے ہوتے ہیں۔ آپ کو دودھ، ڈبل روٹی تک خریدنے کے لیے باہر آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہم اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج رہے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد انتہا کو پہنچ چکا ہے‘‘ ۔
عثمان احمد ایک امریکی تنظیم مرسی کور کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ کشمیر کے نوجوانوں میں بے روزگاری بہت زیادہ اور عدم تحفظ کا احساس شدید ہے ۔ یہ نسل مکمل طور سے کشمکش اور بد امنی میں بڑی ہوئی ہے ۔ اسے کچھ پتہ نہیں کہ دنیا میں نوجوان لوگ نارمل یا صحت مند زندگی کیسے گذارتے ہیں۔ میرے خیال میں اس صورتِ حال کے بعض بہت غیر صحت مند نتیجے بر آمد ہوئے ہیں۔
بعض نوجوانوں نے اپنی ناراضگی کے اظہار کے طریقے ڈھونڈھ نکالے ہیں۔ ایم سی کیش اپنا میوزک انٹرنیٹ کے ذریعے تقسیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ساری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس علاقے میں کس قدر ظلم ہو رہا ہے ۔’’میرے ہم وطنوں نے جو دکھ اٹھائے ہیں ان سے میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ اگر میں ان کے لیے آواز بلند نہ کروں تو میں کشمیری نہیں ہوں‘‘۔
پھر بھی پتھر پھینکنے والے بہت سے نوجوانوں کا خیال ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔ ان کی زندگی کا کوئی مصرف باقی نہیں رہا۔ ’’پولیس اسٹیشنوں میں ہمارے خلاف اتنی فائلیں کھلی ہوئی ہیں کہ ہمیں نہ کوئی ملازمت مل سکتی ہے اور نہ ہم کوئی اور کام کر سکتے ہیں‘‘۔
جیسے جیسے مایوسی بڑھ رہی ہے بہت سے لوگوں میں یہ اندیشہ پیدا ہورہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ احتجاج کرنے والے نوجوان پتھر ایک طرف رکھ دیں اور بندوقیں اٹھا لیں۔