بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے صدر مقام سری نگر میں پولیس نے سرکردہ کشمیری صحافی اور 'دی کشمیر والا' نیوز پورٹل کے بانی مدیر پیرزادہ فہد شاہ کو تھانے سے سرحدی ضلع کپوارہ میں ایک جیل میں منتقل کر دیا ہے۔گزشتہ دنوں پولیس کی تجویز پر ضلع مجسٹریٹ نے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت فہد شاہ کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
کشمیر میں سن 1978 سے نافذ پی ایس اے کے تحت کسی بھی شخص کو اس پر مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس طرح کی نظربندی کو عام عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے-
فہد شاہ کی نظر بندی کی وجوہات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بچپن ہی سے انتہا پسند خیالات کے حامل رہے ہیں اور ان کےمضامین ، رپورٹوں اور دیگر تحریروں میں کشمیری عسسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کی پذیرائی کی جاتی رہی ہے جب کہ انہوں نے حکومت کے ترقیاتی کاموں کے بارے میں شاذ و نادر ہی کچھ لکھا ہے۔
فہد شاہ کو ضلع پلوامہ کی پولیس نےچار فروری کو اُس وقت حراست میں لیا تھا جب علاقے میں30 جنوری کو مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان ایک جھڑپ کی 'دی کشمیر والا' میں کوریج کےسلسلے میں وہ اپنا بیان قلمبند کرانےکے لیے مقامی پولیس اسٹیشن گئےتھے۔
بعدازاں ایک مقامی عدالت نے انہیں عبوری ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا لیکن پولیس نے فہد شاہ کو ضلع شوپیان میں درج ایک دوسری ایف آئی آر میں دوبارہ گرفتار کرلیا تھا۔ انہیں اس کیس میں بھی ضمانت مل گئی لیکن سری نگر کے صفاکدل تھانے کے اہل کاروں نے انہیں ایک مرتبہ پھر یہ کہہ کر حراست میں لے لیا کہ ان کے خلاف ایک کیس درج ہے۔
حکومت کے ترقیاتی اور فلاحی کاموں کو نظر انداز کرنے کا الزام
ایک اعلیٰ پولیس عہدیددار وجے کمار نے الزام عائد کیا تھا کہ فہد شاہ نے اپنی تحریروں اور سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعےدہشت گردی اور دہشت گردوں کی تعریف کی جس سے کشمیری نوجوان تشدد کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے نیوز پورٹل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بھارت مخالف پروپیگنڈاکے عادی بن چکے تھے اور باربار متنبہ کرنے کے باوجود اپنی اس روش سے باز نہیں آرہے تھے۔
پولیس عہدیدار نے الزام لگایا کہ وہ جعلی خبریں پھیلانے کے ساتھ ساتھ شہریوں کو امن و امان کے مسائل پیدا کرنے پر بھی اکسا رہے تھےاور ان کے خلاف تین تھانوں میں ایف آئی آرز درج تھیں۔
33 سالہ فہد شاہ کے وکیل عمیر رونگہ نے ان کے خلاف پولیس رپورٹ یا الزامات کی فہرست کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان کی نظر بندی کو بھارتی کشمیر کی ہائی کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے کیوں کہ ان کے بقول ان کے مؤکل کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انصاف کا قتل ہے۔
مزید پڑھیے بھارتی کشمیر میں وِلیج ڈیفنس کمیٹیاں دوبارہ فعال؛ حالات معمول پر آگئے ہیں تو یہ فیصلہ کیوں ؟واضح رہے کہ بھارتی کشمیر میں اس سے قبل بھی نظر بند کیے گئے بعض صحافیوں پر پولیس یہ الزام عائد کرچکی ہے کہ انہوں نے اپنی رپورٹوں اور مضامین میں حکومت کے فلاحی اور ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کیا۔
البتہ پریس کونسل آف انڈیا نے کشمیر میں میڈیا کی صورتِ حال اور صحافیوں کو درپیش مسائل پر مبنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں یا ترقیاتی کاموں کی حمایت کرنا صحافی کا کام نہیں ہے۔
پریس کونسل کے مطابق سیکیورٹی انتظامیہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تحریر یا کسی صحافی کی طرف سے اپنی اسٹوری میں مسلح افواج کی جانب سےکی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں کسی خاندان کے بیان یا سویلین ذرائع سے منسوب کوائف یا ٹوئٹ کے ذریعے رائے کے اظہار کو فیک نیوز یا ملک دشمن سرگرمی قرار نہیں دے سکتی اورنہ ہی اس صحافی کو ملک سے غداری کے الزام میں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی کشمیر میں مقامی انتظامیہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر قدغنیں لگانے کے نتیجے میں نیوز میڈیا کا دم گھٹ رہا ہے اور پریس کی آزادی بتدریج سلب کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ پریس کونسل آف انڈیا 1966 میں بھارتی پارلیمان کی جانب سے قانونی طور پر قائم کی گئی ایک بااختیار تنظیم ہے جو پریس کی آزادی کے خودضابطہ نگران کا کردار ادا کرتی ہے۔ کونسل 1978 میں پاس کیے گئے پریس کونسل ایکٹ کے تحت کام کرتی ہے۔
بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے گزشتہ برس ستمبر میں کونسل کو ایک خط لکھ کر یہ شکایت کی تھی کہ علاقے میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پریس کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔ صحافیوں کو ڈرانےڈھمکانے اور ہراساں کرنےکا سلسلہ طول پکڑ رہا ہے جو ان کی طرف سے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دینے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔
دوسری جانب کونسل کی ایک سہ رکنی کمیٹی نے حقائق جاننے کے لیے حال ہی میں کشمیر کا دورہ کیا تھا۔
کمیٹی میں بھارت کے ہندی روزمانہ 'دینک بھاسکر' کے گروپ ایڈیٹر پرکاش دوبے، 'دی نیوز انڈین ایکسپریس' کے گوربیرسنگھ اور 'جن مورچہ' اخبار کی ایڈیٹر سمن گپتا شامل تھیں۔ اس فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے سری نگر اور جموں میں صحافیوں، حکومتی عہدیداروں اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقاتیں کرکے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی۔
کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ کونسل کو پیش کی ہے جسے ابھی نہ منظور کیا گیا ہے نہ ہی اس پر کوئی بحث ہوئی ہے۔ البتہ رپورٹ میں غیرمبہم انداز میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کیے جانے کے نتیجے میں علاقے بالخصوص وادئ کشمیر میں نیوز میڈیاکا آہستگی سے گلا گھوٹنا جا رہا ہے۔
'صحافیوں کو ملک اور قوم دشمن قرار دینے کی روش ترک کی جائے'
پریس کونسل کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بات زور دے کرکہی گئی ہے کہ صحافی کا کام حقیقی وقائع نگاری ہے چاہےیہ حکومتی عہدیداروں پر ناگوار گزرے۔ لہٰذا ہرتنقیدی رپورٹنگ اور آرا ء کو ملک یا قوم دشمن قرار دینے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق "ایک شورش زدہ علاقے میں پیش آنے والے واقعات کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ ایک صحافی حکومت کے ورژن یا نقطۂ نظر کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ اسے کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کی جاتی ہے کہ وہ حکومت کا ترجمان نہیں ہے۔"
رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ مختلف سرکاری محکموں کے عوامی رابطے کا کام پولیس نےسنبھالا ہے۔اب یہ سلسلہ رُک جانا چاہیے کیوں کہ یہ ایک جمہوری حکومت کے مختلف اداروں کے کام کے طریقے کے منافی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد ایسے صحافیوں کے خلاف جنہوں نے حکومت کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی انہیں الاٹ کی گئی سرکاری رہائشی سہولت کو ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف صحافیوں کو اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے وہیں مقامی اخبارات کو سرکاری اشتہارات ان کی طرف سے اختیار کی گئی ایڈیٹوریل پالیسی اور کوریج کی بنیاد پر ہی ریلیز کیے جاتے ہیں اور یوں انہیں بھی ان اخبارات کے مالکان اور صحافیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
سری نگر اور جموں میں تناؤ اور مخاصمت کا ماحول
کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان کے سری نگر اور جموں میں قیام کے دوران دونوں مقامات پر دشمنی اور تنازع کا ماحول واضح طور پر عیاں تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے سری نگر میں پیش آنے والی ٹارگٹ کلنگز کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ واقعات وادئ کشمیر میں گہرائی کے ساتھ ٹوٹی ہوئی صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی اور تناؤ روز مرہ زندگی کی ایک حقیقت ہےاور لوگوں کو بندوق کے سائے میں اور اس کی وجہ سے آنے والی رکاوٹوں کے بیچ زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔صحافی بھی انہی نامسائد حالات اور تنازع میں شامل مختلف پارٹیوں کی طرف سے ڈالے جانے والے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔
پانچ برسوں میں صحافیو ں کے خلاف 49 مقدمے
رپورٹ میں جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے جون 2020میں جاری کی گئی نئی میڈیا پالیسی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی کئی شقیں علاقے میں پریس کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والے اقدامات کی بنیاد بن رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے 2016سے لیکر اکتوبر 2021تک صحافیوں کےخلاف قانون کی مختلف دفعات کے تحت 49مقدمے درج کیے تھے۔ ان پر لگائے گئے الزامات میں علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کا الزام بھی شامل ہے ۔
SEE ALSO: بھارتی کشمیر: مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپ میں دو سیکیورٹی اہلکار ہلاکمذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں سے پولیس تفتیش کی گئی اور انہیں جعلی خبریں پھیلانے کے الزام میں گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کئی صحافیوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ان سے یا ان کے ساتھیوں سے سری نگر کےبدنامِ زمانہ کارگو سیںٹر تک میں پوچھ گچھ کی گئی۔
صحافیوں پر بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام
رپورٹ میں پولیس عہدیدار انسپکٹر وجے کمار سے یہ بیان منسوب کیا گیا جس میں 49صحافیوں کے خلاف مقدمات کی تفصیلات بتائی گئی۔ ان مقدمات میں سے آٹھ پر غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق سخت گیر قانون کے تحت الزامات عائد کیے گئے جب کہ 17 پر مجرمانہ دھونس دباؤ ڈالنے اور 24 پر بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔
وجے کمار اور انتظامی عہدیدار ڈویژنل کمشنر پندورنگ کے پولے نے صحافیوں کے خلاف مختلف اقدامات کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ اپنی پوزیشن کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ وہ بعض اوقات ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں جو لوگوں کو اکسانے کا باعث بن جاتی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کئی صحافیوں اور آزاد کالم نویسوں نے پولیس کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمایت کی اور کہا کہ کئی صحافی عسکریت پسندوں کے آلۂ کار بن گئے ہیں اور صحافت کی آڑ میں بھارت دشمن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں صحافیوں کو درپیش مواصلاتی دشواریوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ماضی قریب میں انٹرنیٹ پر پابندی ان کے کام پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہے۔ انہیں خبر تک مکمل رسائی حاصل نہیں اور محکمۂ اطلاعات 31مارچ 2021سے ان کی ایکریڈیٹیشن کی تجدید کرنے میں ناکام ہوا ہے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو اہے بالخصوص ان کی آزادانہ نقل و حرکت اورمحدود علاقوں اور سرکاری دفاتر تک رسائی محال بن گئی ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کئی صحافیوں نے کمیٹی کو بتایا کہ محبوبہ مفتی کا یہ الزام صداقت پر مبنی ہے کہ صحافیوں کو پولیس تھانوں میں طلب کرکے ان سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے اور انہیں ایک سوال نامہ بھرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انسپکٹر جنرل وجے کمار کو یہ قبول کرنے میں کوئی خوف نہیں تھا کہ ایسا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ ان کے " ملک دشمن فورسز' کے ساتھ کوئی روابط نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ جموں و کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کی پروفائلنگ کرنےکا ایک پروگرام جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی کشمیر کی انتظامیہ کے سربراہ لیفٹننٹ گونر منوج سنہا نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو برملا طور پر بتادیا کہ کئی صحافی 'قوم دشمن' سرگرمیوں کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کی تقرری کے بعد وہ اپنی پریس کانفرنسز میں سب ہی کو دعوت دیتے تھے لیکن اب وہ ترجیحی صحافیوں کے ساتھ ہی گفتگو پر اکتفا کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں کمیٹی نے اس تمام صورتِ حال کے پیش نظر مقامی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ صحافیوں کے مسائل حل کرنے اور انہیں درپیش مشکلات کو دور کرنے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع کرے اور اس مقصد کے لیے چند پلیٹ فارمز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ باہمی شکوک و شبہات کو مرحلہ وار دور کیا جاسکے۔