بھارت اور چین ایک دوسرے کے صحافیوں کو کیوں نکال رہے ہیں؟

فائل فوٹو۔

بھارت اور چین کے درمیان اپنے اپنے ملک میں ایک دوسرے کے صحافیوں کی موجودگی کے تعلق سے پیدا ہونے والے تنازع نے سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے صحافیوں کے لیے ویزوں تجدید روک دی ہے جب کہ چین نے اپنے یہاں بھارت کے آخری صحافی کو بھی اس ماہ کے آخر تک ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا ہے۔

مبصرین کے مطابق یہ معاملہ دونوں ملکوں کے باہمی رشتوں میں 2020 سے جاری رہنے والے تعطل کا ایک نیا پہلو ہے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کےتعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ اس نے یہ قدم جوابی کارروائی کے طور پر اٹھایا ہے۔ بھارت نے گزشتہ ماہ چین کے سرکاری میڈیا سے وابستہ دو آخری صحافیوں کے ویزوں کی تجدید سے انکار کر دیا تھا۔اس کے بعد چین نے بھی آخری دو بھارتی صحافیوں کے ویزوں کی تجدید نہیں کی۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبِن نے پیر کو بیجنگ میں میڈیا بریفنگ کے دوران الزام لگایا کہ حالیہ برسوں میں بھارت میں چینی صحافیوں کے ساتھ ناروا اور امتیازی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بھارت چینی صحافیوں کو ویزہ جاری کرے گا اور نامناسب پابندیاں ہٹا کر میڈیا کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے گا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چین میں موجود دو بھارتی صحافیوں میں سے ایک ویزہ ختم ہونے کے باعث اتوار کو چین سے وطن واپس آگئے ہیں۔ چین سے واپس آنے والے صحافی ’ہندوستان ٹائمز‘ کے رپورٹر ہیں۔

اس وقت چین میں موجود آخری صحافی خبر رساں ادارے ’ پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے ویزہ کی معیاد بھی رواں ماہ ختم ہوجائے گی جس کے بعد وہ بھی بھارت واپس آجائیں گے۔ رپورٹس کے مطابق رواں سال کے دوران چین میں چار بھارتی صحافی تھے اور رواں ماہ کے اختتام تک ان میں سے کوئی بھی چین میں نہیں ہوگا۔

بھارت نے صحافیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے چین کے الزام کی تردید کی ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے گزشتہ ہفتے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ چینی صحافیوں سمیت تمام غیر ملکی صحافیوں کو بھارت میں بغیر کسی پابندی کے کام کرنے کی اجازت ہے۔

SEE ALSO: کیا امریکہ بھارت دفاعی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی وجہ چین ہے؟


تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی صحافی کو مسلمہ صحافتی اصولوں سے انحراف نہیں کرنا چاہیے اور صحافیوں کو جاری ہونے والے ویزے کے ضابطوں کی پابندی کرنی چاہیے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ چین میں بھارتی صحافیوں کو مخصوص دشواریوں کا سامنا ہے جیسے کہ انھیں مقامی صحافیوں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مقامی طور پر آمد ورفت کے سلسلے میں بھی ان پر پابندیاں ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ چین بھارتی صحافیوں کو اپنے یہاں کام جاری رکھنے کی اجازت دے گا۔

’باہمی تعلقات کے لیے خطرناک‘

چین سے متعلق امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اچھا نہیں ہے۔ دونوں ملکوں میں صحافیوں کی موجودگی ہونی چاہیے تاکہ براہ راست اطلاعات کی ترسیل ہوتی رہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دونوں ملکوں کے رشتے بہت ہی نچلی سطح پر چلے گئے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایسے میں ایک دوسرے ملک میں صحافیوں کی موجودگی اور ضروری ہو جاتی ہے۔ لیکن اب جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ باہمی رشتوں کے لیے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے۔

انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ کے ادارے سے شائع ہونے والے ہندی روزنامہ ’دینک ہندوستان‘ کے ایڈیٹر پرتاپ سوم ونشی کہتے ہیں کہ دونوں ملک اظہار رائے کی آزادی کی بات تو کرتے ہیں لیکن دونوں کے اقدامات اس کے منافی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے صحافیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ حقائق پر مبنی رپورٹنگ نہیں کر رہے۔

SEE ALSO: چین اور بھارت کے درمیان صحافیوں کے ویزے پر تنازعہ


ان کے مطابق یہ اطلاعات کا دور ہے جس میں کوئی اطلا اعات کی فراہمی اور بہاؤ کو روک نہیں سکتا۔ اگر کوئی ملک ایسا کرتا ہے تو اس کا خطرناک نتیجہ اس شکل میں برآمد ہوگا کہ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں عام ہوں گی اور میڈیا میں صورت حال کی صحیح عکاسی نہیں ہو پائے گی۔

وہ بھی پروین ساہنی کے اس خیال سے متفق ہیں کہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والی تلخی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باہمی تعلقات کی نوعیت اپنی جگہ پر لیکن میڈیا کو ان سب چیزوں سے الگ رکھنا چاہیے۔

اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی صحافی شکوک وشبہات کے دائرے میں ہے تو اسے اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے۔

’سفارت خانے بند ہونے پر بھی صحافی نہیں نکالے جاتے‘

بعض دیگر تجزیہ کار بھی اسے بھارت اور چین کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا نتیجہ قرار رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کو اپنے اپنے دلائل دینے کے بجائے اس معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنا چاہیے۔

پرتاپ سوم ونشی مزید کہتے ہیں کہ اب تک یہ ہوتا تھا کہ اگر دو ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ہیں اور ان کے سفارت خانے بھی بند جائیں تب بھی صحافیوں کو نہیں نکالا جاتا تھا۔

وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ یہ صورت حال نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ میڈیا کی آزادی کے لیے بھی تشویش کی بات ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق بھارت نے 2020 کے بعد کسی بھی چینی صحافی کو ویزہ جاری نہیں کیا اور نہ ہی ان کے ویزے کی تجدید کی۔ اس سے قبل بھارت میں چین کے 14 صحافی کام کر رہے تھے لیکن اب صرف ایک ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارت کی آبادی چین سے بڑھنے پر کیا تبدیلیاں متوقع ہیں؟


رپورٹس کے مطابق بھارت نے مئی میں منعقد ہونے والے ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ (ایس سی او) کے اجلاس کی کوریج کے لیے چین کے سرکاری میڈیا کے رپورٹرز کو عارضی ویزے جاری کیے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب چین میں بھارت کے بعض صحافیوں نے مقامی صحافیوں کی خدمات حاصل کیں۔ لیکن چین نے اس پر پابندی لگا دی۔ اس کا کہنا ہے کہ بیک وقت صرف تین مقامی صحافیوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں اور وہ صحافی بھی چینی انتظامیہ کی جانب سے مہیا کیے جائیں گے۔ بھارت میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔

یہ تنازع ایسے وقت میں گہرا ہو گیا ہے جب بھارت جی ٹوئنٹی کی صدارت کر رہا ہے اور ستمبر میں نئی دہلی میں اس گروپ کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔چین نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے جی ٹوئنٹی کے سیاحتی ورکنگ گروپس کے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔

واضح رہے کہ دونوں ملکوں میں سرحدی تنازع کو حل کرنے کے لیے کمانڈرز کی سطح پر مذاکرات کے 18 دور ہو چکے ہیں۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی افواج متنازع علاقوں سے کچھ پیچھے ہٹی ہیں لیکن تنازع پوری طرح ختم نہیں ہوا ہے۔

لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر دونوں جانب سے پچاس پچاس ہزار فوجی جوان اور ہلکے و بھاری ہتھیار تعینات ہیں۔