رسائی کے لنکس

جنگل میں طیارہ گرنے کے بعد چار بچے 40 دن تک کیسے زندہ رہے؟


کولمبیا کے جنگلات میں جہاز گرا تو اس میں سوار بڑی عمر کے تمام افراد کی موت ہو گئی البتہ 13 برس کی لیسلی، ان کی نو برس کی بہن سولینی، پانچ برس کے بھائی تیان نورئیل اور 11 ماہ کی بہن کرسٹین سلامت رہے۔سب سے بڑی بہن لیسلی نے 40 دن تک انتہائی بہادری اور ذہانت سے چھوٹے بھائی بہنوں کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ سب کے زندہ رہنے کی راہیں بھی تلاش کیں۔

یہ چاروں بچے اپنی والدہ کے ہمراہ اس جہاز میں سوار تھے جو کہ گزشتہ ماہ یکم مئی کو حادثے کا شکار ہوا تھا۔

کولمبیا کے جنگلات میں گرنے والے جہاز میں ان بچوں کی والدہ اور پائلٹ سمیت تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس جہاز کو ڈھونڈنے کے لیے کولمبیا کی فوج کے 200 اہلکاروں اور مقامی قبائل کے ماہر افراد کی مدد لی گئی تھی۔

خبر رساں ادارے’اے ایف پی‘ کے مطابق ایک ماہ اور 10 دن کی مسلسل تلاش کے بعد ان بچوں کو جنگل میں ایک مقام پر مقامی قبائل کے افراد نے ڈھونڈ لیا۔ اس حوالے سے گزشتہ جمعے کو باقاعدہ سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تھا۔

ماہرین نے چاروں بچوں کے زندہ رہنے کو ایک معجزہ قرار دیا ہے۔

خوراک اور پانی کی ضروریات

جہاز تباہ ہونے کے بعد ابتدائی دنوں میں ان بچوں نے جہاز پر موجود آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیا ملبے سے نکال کر استعمال کیں۔

سرچ آپریشن کی قیادت کرنے والے فوج کے جنرل پیدرو سانشز کا کہنا تھا کہ جب ان بچوں کے پاس کوئی بھی غذائی چیز موجود نہ رہی تو انہوں نے اس جنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔

اپنے طویل سفر کے دوران بچوں نے کئی جنگلی پھل کھائے جن میں جنگلی آڑو، جنگلی آم شامل تھے۔

سرچ ٹیم میں شامل مقامی قبائل کی تنظیم ’نیشنل انڈیجینس آرگنائزئشن‘ کے ایک رکن لوئس اکسوتا کا کہنا تھا کہ ان بچوں نے کئی ایسی جڑی بوٹیاں اور پودوں کے جڑیں بھی اپنی غذائی ضروریات کے لیے کھائیں جو انہیں کھانے کے قابل معلوم ہوئیں۔

رپورٹس کے مطابق بچوں نے جو بھی جنگلی چیزیں کھائیں وہ ان کے زندہ رہنے کے لیے تو کافی تھیں البتہ وہ لگ بھگ چھ ہفتوں میں انتہائی کمزور ہو چکے ہیں۔ اس دوران کمزری کے سبب پانچ سالہ بچہ مزید چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔

سرچ ٹیم کے ایک اور رکن ہینری گوریرو نے بتایا کہ جب یہ بچے جہاز کے ملبے کے پاس سے جنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو 13 سالہ لیسلی نے وہاں ملبے سے کولڈ ڈرنک کی ایک بوتل اٹھا لی تھی۔ اس کے بعد وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں دریا قریب تھا یوں ان کے پاس پینے کے لیے پانی متواتر دستیاب تھا۔

کولمبیا کی فوج نے بھی سرچ آپریشن میں کئی مقامات پر بچوں کے لیے غذائی اجزا فضا سے جنگل میں پھینکی تھیں لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ان بچوں کو ان غذائی اجزا میں سے کچھ ملا تھا یا نہیں۔

سوٹ کیس کی کہانی

ہینری گوریرو کا مزید کہنا تھا کہ لیسلی نے ملبے کے پاس روانہ ہوتے وقت نہ صرف بوتل اٹھائی تھی بلکہ ایک ایسا چھوٹا سوٹ کیس بھی اٹھا لیا تھا جس میں ترپال موجود تھی۔ اسی طرح وہاں ایک تولیہ موجود تھا جسے یہ لڑکی ساتھ لائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ان بچوں نے ایک ٹارچ، کچھ کپڑے اور دو موبائل فون بھی ساتھ لیے تھے۔

ان بچوں نے کئی بار سفر کے دوران ترپال سے اپنے لیے پناہ گاہ بنائی۔ بچے زمین پر سوتے تھے تو اس دوران تولیے کو زمین پر بچھا لیتے تھے اور اس پر لیٹ جاتے تھے۔

ہینری گوریرو کے مطابق بچے اپنے ساتھ دو موبائل فون لے کر تو آ گئے تھے لیکن وہ اس کا استعمال نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ جنگل میں موبائل فون کے سگنل نہیں آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں موبائل فون ممکنہ طور پر رات میں بچوں کے استعمال میں آتے ہوں گے تاکہ ان کی توجہ منتشر ہو البتہ ان کے لیے اس کا استعمال اس وقت تک ہی ممکن ہو سکا جب تک ان موبائل فونز کی بیٹریاں چارج تھیں۔

لیسلی نے ترپال کے ساتھ ساتھ سوٹ کیس میں ایک کھلونا میوزک باکس بھی ڈال لیا تھا۔

بہادری اور ذہانت کا مظاہرہ

کولمبیا کی وزارتِ دفاع نے 13 سالہ لیسلی کو خاص طور پر سراہا ہے۔ ایک بیان میں وزارتِ دفاع نے لیسلی کو بہادری، قائدانہ کردار، خود اور اپنے ساتھ مزید تین بچوں کے زندہ رہنے کی کوشش پر خاص طور پر شکریہ ادا کیا ہے۔

بیان کے مطابق لیسلی کی جنگل کے بارے میں معلومات اور تین بچوں کا وہاں زندہ رکھنے کے لیے خیال رکھنے پر خاص طور پر شکر گزار ہیں۔

سرچ ٹیم کے رکن ہینری گوریرو نے کہا کہ لیسلی نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے عقل مندی کے ساتھ ملبے سے اپنے ساتھ اشیا اٹھائیں۔

سرچ ٹیم میں شامل’نیشنل انڈیجینس آرگنائزئشن‘ کے رکن لوئس اکسوتا کا کہنا تھا کہ بڑے بچے جنگل سے بخوبی واقف تھے۔ یہ بچے بھی ’ہوئی توتو‘ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو بہت کم عمر میں جنگل سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بچے جانتے تھے کہ جنگل میں کیا کھایا جا سکتا ہے اور کونسی چیزیں ایسی ہیں جو نہیں کھانی۔

ان کے مطابق جنگل سے آگاہی اور بلند حوصلے کی وجہ سے یہ بچے جنگل میں زندہ رہنے میں کامیاب رہے۔

بچوں کی تلاش میں مشکلات

کولمبیا کے اس گھنے جنگل میں 24 گھنٹوں کے دوران صرف آٹھ گھنٹے ہی اس قدر روشنی میسر تھی کہ بچوں کی تلاش کا آپریشن جاری رہ سکے۔

اس آپریشن میں کولمبیا کی فوج اور مقامی قبائل کے افراد کی بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ کھوجی کتوں کی بھی مدد لی گئی۔

بچوں کی تلاش کے لیے لگ بھگ دو ہزار چھ سو کلو میٹر کے رقبے میں آپریشن 40 دن تک جاری رہا۔

تلاش کے آپریشن میں اس وقت کامیابی ملی جب جہاز کے ملبے سے لگ بھگ پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر یہ چاروں بچے مقامی قبائل کے افراد کو مل گئے۔

طبی امداد دینے کے ساتھ ساتھ ان بچوں کا نفسیاتی علاج بھی کیا جا رہا ہے۔

کولمبیا کے فیملی ویلفیئر انسٹیٹیوٹ کے سربراہ آسترید کیسرز کا کہنا تھا کہ 13 سالہ لیسلی اور نو سالہ تیان نوریل کو تیز بخار ہے البتہ پیر کو ان چاروں بچوں نے بھر پور نیند لی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کی حالت توقع کے مطابق بہتر ہو رہی ہے البتہ انہیں مزید کچھ ہفتوں کے لیے اسپتال میں رہنا ہوگا۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG