عالمی سطح پر عام لوگوں کو جس بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا ہے ایسی صورتِ حال گزشتہ کئی دہائیوں میں سامنے نہیں آئی۔ دنیا بھر میں خوراک، ایندھن، نقل و حمل اور رہائش کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی میں کمی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں بلکہ اس کے اثرات مزید سنگین ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین کے نزدیک عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی بحران کے اسباب کی بات کی جائے تو صرف دو لفظ صورتِ حال کو واضح کردیتے ہیں: وبا اور جنگ!
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے قابو میں آنے کے بعد وبا کے دوران افراطِ زر میں آنے والی کمی اور کم شرحِ سود میں ایک بار پھر اضافہ شروع ہوا۔ لاک ڈاؤن کے دوران حکومتوں اور مرکزی بینکوں کو کاروبار اور عام لوگوں کی مدد کے لیے کھربوں خرچ کرنا پڑے۔ اس لیے زندگی معمول کی جانب لوٹتے ہی انہیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔
وبا کے بعد دنیا بھر میں کاروباری مشکلات بڑھی ہیں اور جائیداد کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں طلب و رسد کا توازن بھی اس طرح بگڑا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق 2021 میں جب دنیا بھر سے لاک ڈاؤن ختم ہورہے تھے تو معاشی ترقی کی شرح 80 برس کے دوران تیز ترین رفتار سے بڑھ رہی تھی۔ تجارتی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔
دنیا بھر میں فیکٹریاں کرونا سے بچاؤ کے قواعد پر عمل درآمد کی وجہ سے افرادی قوت کی کمی، نقل و حرکت میں دشواریوں اور صحت عامہ کے مسائل کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھیں۔ ایسے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اشیا کی طلب پوری کرنے کے لیے صنعتوں کا پہیہ ایک بار پھر چلنا شروع ہوا تو یکدم پیداواری سرگرمیاں بڑھنے سے توانائی کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے پیدا ہونے والی یہ مشکلات کم نہیں ہوئی تھیں کہ رواں برس فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک کی روس پر پابندیوں کے سبب تیل اور گیس کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
SEE ALSO: ’سال 2023 فضائی صنعت کے لیے منافع بخش ہو گا‘ایک اور چیلنج کا سامنا
معاشی سست روی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کو ’غریبوں پر ٹیکس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران دولت مند صارفین نے اپنی بچت پر انحصار کیا اور اس میں اضافہ بھی کیا ہے جب کہ درمیانے اور کم آمدن والے طبقات کے لیے روز مرہ گزر بسر بھی انتہائی دشوار ہوتی گئی۔
موسمِ سرما کی آمد کے بعد سے دنیا کے سرد خطوں میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث روزمرہ اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ آمدن کو مہنگائی کی بڑھتی شرح کے برابر بنانے کے لیے دنیا بھر میں صحتِ عامہ سے ہوا بازی کے شعبے تک ورکر آواز اُٹھار رہے ہیں اور ہڑتالیں بھی کررہے ہیں۔ زیادہ تر ممالک میں ملازمت پیشہ افرد کی آمدن محدود ہے جب کہ مہنگائی کے باعث اخراجات بڑھ رہے ہیں۔
روزمرہ اخراجات میں اضافے سے متلق تحفظات نے اب دنیا کے امیر ترین ممالک کی سیاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان تحفظات کی وجہ سے بعض ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی جیسے اہم مسائل بھی پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
تیل کی عالمی قیمتوں میں آنے والی حالیہ کمی کے بعد معاشی دباؤ کچھ کم ضرور ہوا لیکن امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ اس وقت بھی جو بائیڈن حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد فرانس اور جرمنی نے بھی اپنے ممالک میں معاشی بحران کے مقابلے کے لیے معاشی معاونت کے پروگرامز کے لیے مختص بجٹ بڑھانا شروع کیے ہیں۔
لیکن صنعتی پیداوار پر انحصار کرنے والے غریب ممالک میں صورتِ حال سنگین ہورہی ہے۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہیٹی سے سوڈان اور لبنان سے سری لنکا تک غریب ممالک شدید مسائل کا شکار ہیں۔
SEE ALSO: یوکرین جنگ کے ماحولیاتی اثرات دور کرنے میں برسوں لگیں گے: ماہرین ماحولیاتبھوک کا سونامی
عالمی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اندازے کے مطابق یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد دنیا کے مزید سات کروڑ افراد فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کی رسد شدید متاثر ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی گندم اور جو کی کل ضروریات کا ایک تہائی حصہ روس اور یوکرین برآمد کرتے ہیں۔ دونوں ممالک مجموعی طور پر دنیا کا 70 فی صد سورج مکھی کا تیل پیدا کرتے ہیں اور بڑی مقدار میں مکئی بھی برآمد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس کھاد کی پیداوار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے نہ صرف خوراک کی طلب پوری کرنے میں عالمی سطح پر شدید مشکلات کا سامنا ہے بلکہ کئی ممالک کی زراعت بھی اس جنگ سے بالواسطہ طور پر متاثر ہورہی ہے۔اس لیے یوکرین کی جنگ کو دنیا کے لیے ’بھوک کا سونامی‘ بھی قرار دیا جارہا ہے۔
2023 کیسا ہوگا؟
دنیا بھر میں مرکزی بینک افراطِ زر کی روک تھام کے لیے شرح سود میں اضافہ کررہے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے امکان ظاہر کیا ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح کم ہو کر 4.7 فی صد تک آسکتی ہے۔
اگرچہ ماہرین کے نزدیک معاشی بحران پر قابو پانے کے لیےبینک’نرم شرائط‘ پر قرضے فراہم کرنے کی حکمتِ عملی اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ قرضے بھی معاشی عمل کو جاری رکھنے میں اسی صورت میں کامیاب ہوں گے جب مکانات کی قیمتیں نیچے نہ آئیں، کاروبار بند نہ ہوں یا بے روزگاری میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن مہنگائی کی شرح میں اضافے سے پیدا ہونے والے حالات میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ مذکورہ معاشی مسائل جنم نہ لیں۔
امریکہ اور یورپی یونین میں شرح سود بڑھانے کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ معاشی عوارض کے لیے دی گئی یہ دوا زیادہ ہی کڑوی ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ یوکرین جنگ، چین اور مغربی ممالک کے درمیان کشیدگی جیسے مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے یقینی معاشی بہتری کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوگی۔
SEE ALSO: انتہائی ضرورت مند افراد کی عالمی تعداد میں اضافہ، اقوام متحدہ کی ساڑھے 51 ارب ڈالر عطیات کی اپیلآئی ایم ایف نے رواں برس ماہِ اکتوبر سے متعلق اپنی جو رپورٹ جاری کی ہے وہ گزشتہ کئی برسوں کے مقابلے میں دشوار ترین معاشی حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن اس رپورٹ میں کہا گیا ہے:’ المختصر، کئی لوگوں کے لیے بدترین حالات ابھی آنے والے ہیں، 2023 میں بڑے پیمانے پر پہلے معاشی بحران جسیے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔‘
اس تحریر میں شامل زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔