ایک تازہ تحقیق کے مطابق بین الاقوامی طلبہ نے امریکی یونیورسٹیوں میں گزشتہ سال چار دہائیوں میں سب سے بڑی تعداد میں داخلہ لیا ہے۔
تعلیمی سال 23-2022 میں امریکہ میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں 12 فی صد اضافہ ہوا ہے جو کہ 40 سے زائد سالوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
بیرونِ ملک سے 10 لاکھ سے زیادہ طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ آئے ہیں۔ یہ تعداد 20-2019 کے تعلیمی سال کے بعد امریکہ میں غیر ملکی طلبہ کے داخلوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
بھارت سے امریکہ آنے والے طلبہ کی تعداد میں پچھلے تعلیمی سال میں ریکارڈ اٖضافہ دیکھا گیا جب کہ پاکستان سے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس قدر تعداد میں اضافے کا ایک بڑا سبب بھارت سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں 35 فی صد اضافہ رہا ہے۔
یہ نتائج امریکی محکمہ خارجہ اور "انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن" کی مشترکہ تحقیق پر مبنی ہیں۔
واضح رہے کہ چین کے بعد بھارت سے سب سے بڑی تعداد میں طلبہ امریکہ آتے ہیں۔ان دو بڑی آبادی کے ملکوں کے علاوہ امریکہ میں زیادہ طلبہ بھیجنے والے ممالک میں جنوبی کوریا، کینیڈا، ویتنام، تائیوان اور نائجیریا شامل ہیں۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے گزشتہ تعلیمی سال کے دوران طلبہ ریکارڈ تعداد میں امریکہ آئے ہیں۔ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران پاکستان سے 10 ہزار 164 طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ آئے۔
اس سے ایک تعلیمی سال قبل پاکستان سے آٹھ ہزار 772 طلبہ امریکہ آئے تھے۔ یو ں پاکستانی طالب علموں کی تعداد میں 15.9 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کے علاوہ جن ملکوں سے طلبہ نے ریکارڈ تعداد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکی اداروں میں داخلہ لیا ان میں بنگلہ دیش، کولمبیا، گھانا, اٹلی اورنیپال بھی شامل ہیں۔
امریکی تعلیمی اداروں میں غیر ملکی طلبہ کے داخلوں میں اضافے کے رجحان کے بارے میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کے سی ای او ایلن ای گڈمین نے کہا، "یہ اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ امریکہ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند بین الاقوامی طلبہ کے لیے انتخاب کی منزل بنا ہوا ہے، جیسا کہ ایک صدی سے زیادہ (عرصے سے) یہ رجحان چلا آ رہا ہے۔"
امریکی کالجوں میں بھارت سے تقریباً 269,000 طلبہ نے داخلہ لیا، جو پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔بھارت سے آنے والے طلبہ میں زیادہ تر سائنس، ٹیکنالوجی اور بزنس ایجوکیشن میں گریجویٹ پروگراموں کے لیے آئے ہیں۔
محکمۂ خارجہ کے تعلیمی تبادلے کے لیے قائم مقام نائب معاون سیکریٹری ماریانے کریون نے کہا، "امریکہ تعلیم کے معاملے میں بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کو برقرار رکھتا ہے، جو میرے خیال میں اور بھی مضبوط اور زیادہ مربوط ہو رہا ہے۔"
چین سے 290,000 طالب علموں نے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کا رخ کیا جو کہ امریکہ میں سب سے زیادہ غیر ملکی طلبہ کی تعداد ہے۔تاہم چین سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں مسلسل تیسرے سال کمی واقع ہوئی ہے جو محققین کے مطابق ایک بتدریج ہونے والی تبدیلی کا عکاس ہے۔
برسوں تک امریکی تعلیمی اداروں میں چینی طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ تاہم سرد بین الاقوامی تعلقات اور برطانیہ و کینیڈا کی یونیورسٹیوں سے بڑھتی ہوئی مسابقت کے درمیان چینی طلبہ کی امریکی یونیورسٹیوں میں دلچسپی میں کمی آئی ہے۔
نئی تحقیق کے مطابق عہدیدار کرونا وبا کے دوران ایشیا میں طویل سفری پابندیوں کو بھی چینی طلبہ کی تعداد میں کمی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
اس اثنا میں امریکی یونیورسٹیوں نے بھارتی طلبہ کو داخلے دینے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو امید ہے کہ وہ بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
اس وقت چین کے مقابلے میں بھارت سے آنے والے طلبہ امریکی ریاست الی نوائے، ٹیکساس اور مشی گن سمیت 24 ریاستوں میں بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہیں۔
البتہ ٹیکساس، مشی گن اور الی نوائے وہ تین ریاستیں ہیں جو بین الاقوامی طلبہ کے لیے سرِفہرست منزلوں میں شامل ہیں۔
(اس خبر میں شامل زیاد تر معلومات اے پی خبر رساں ادارے اور مذکورہ تحقیقی رپورٹ سے لی گئی ہیں)