’کمپیوٹر بچوں کے کمرے کی بجائے گھر کی کسی ایسی جگہ لگایا جائے جہاں گھر کے تمام لوگوں کا آنا جانا ہو، جیسا کہ ٹی وی لاوٴنج، تاکہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھی جا سکے‘
کراچی —
اگر کوئی بچہ اپنے ماں باپ سے کہے کہ وہ دو چار گھنٹوں کے لئے کسی دلچسپ شہر کی سیر کرنے جا رہا ہے اور والدین کو اس شہر کے بارے میں تحقیق کرنے پر پتا چلے کہ اس انوکھے شہر میں نئے لوگ، بیشمار نئی جگہیں اور ان کی توقعات سے بڑھ کر ہر موضوع پر عجائب گھر ہیں تو-- والدین کا اس پر ردعمل کیا ہوگا؟
شاید، والدین سب سے پہلے یہ اطمنان کریں گے کہ ان کا بچہ کتنا بالغ ہے؟ کیا وہ ایک بڑے اور نئے شہر کا اکیلے سامنا کر سکتا ہے؟ کیا وہ نئے شہر میں خطرناک مقامات پر نہیں جائے گا؟ اور وہ اس انجانی جگہ سے کب تک واپس آجائے گا؟
یہ انوکھا شہر بلکہ انوکھی دنیا ہے انٹرنیٹ کی! یہ کہنا ہے بچوں کی صحت اور پرورش پر شہرہ آفاق کتاب، ’ڈاکٹر اسپوکس بیبی اینڈ چائلڈ کئیر‘ کا۔
بارہ مارچ کو انٹرنیٹ 25 سال کا ہوگیا اور اس کی افادیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ، یہ علم و تحقیق کا ذخیرہ ہے۔ لیکن، انٹرنیٹ پر بے حیائی اور تشدد کی ویب سائٹس عام ہیں اور انٹرنیٹ پر کوئی بھی بدکار با آسانی اپنے آپ کو بچہ ظاہر کرکے معصوم بچوں کو اپنا شکار بنا سکتا ہے۔ جبکہ، انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر موجود اشتہارات بھی بچوں پر منفی طور پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
کراچی کی ڈاوٴ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسسز میں بچوں کے شعبے کی سربراہ پروفیسسر ڈاکٹر عائشہ مہناز نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ انٹرنیٹ کے استعمال میں وقت کی قید ہونی چاہئے اور اس میں بچوں کو والدین کی سرپرستی حاصل ہونی چاہئے اور بچوں کو یہ سکھانا چاہئے کہ وہ انٹرنیٹ پر کبھی بھی کسی کو اپنی ذاتی معلومات نہ دیں، اپنی تصاویر یا اپنے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے پاس ورڈ کسی کو نہ دیں اور اگر کبھی کوئی کسی بچے کو نازیبہ پیغام دے تو اس بچے کو فوری طور پر اپنے والدین کو اس بارے میں بتانا چاہئے ۔
پروفیسسر مہناز کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر بچوں کے کمرے کی بجائے گھر کی کسی ایسی جگہ لگایا جائے جہاں گھر کے تمام لوگوں کا آنا جانا ہو، جیسے کہ ٹی وی لاوٴنج، تاکہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھی جا سکے۔
ماہرین کے مطابق، بچوں پر سختی سے زیادہ کارآمد ان کی بہتر تربیت ہے، تاکہ وہ انٹرنیٹ کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں اور والدین کو چاہئے کہ جب بچے انٹرنیٹ استعمال کریں تو وہ بچوں کے ساتھ رہیں، تاکہ وہ خود بھی انٹرنیٹ کا استعمال سیکھیں اور اپنے بچوں کی بہتر رہنمائی کر سکیں۔
شاید، والدین سب سے پہلے یہ اطمنان کریں گے کہ ان کا بچہ کتنا بالغ ہے؟ کیا وہ ایک بڑے اور نئے شہر کا اکیلے سامنا کر سکتا ہے؟ کیا وہ نئے شہر میں خطرناک مقامات پر نہیں جائے گا؟ اور وہ اس انجانی جگہ سے کب تک واپس آجائے گا؟
یہ انوکھا شہر بلکہ انوکھی دنیا ہے انٹرنیٹ کی! یہ کہنا ہے بچوں کی صحت اور پرورش پر شہرہ آفاق کتاب، ’ڈاکٹر اسپوکس بیبی اینڈ چائلڈ کئیر‘ کا۔
بارہ مارچ کو انٹرنیٹ 25 سال کا ہوگیا اور اس کی افادیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ، یہ علم و تحقیق کا ذخیرہ ہے۔ لیکن، انٹرنیٹ پر بے حیائی اور تشدد کی ویب سائٹس عام ہیں اور انٹرنیٹ پر کوئی بھی بدکار با آسانی اپنے آپ کو بچہ ظاہر کرکے معصوم بچوں کو اپنا شکار بنا سکتا ہے۔ جبکہ، انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر موجود اشتہارات بھی بچوں پر منفی طور پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
کراچی کی ڈاوٴ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسسز میں بچوں کے شعبے کی سربراہ پروفیسسر ڈاکٹر عائشہ مہناز نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ انٹرنیٹ کے استعمال میں وقت کی قید ہونی چاہئے اور اس میں بچوں کو والدین کی سرپرستی حاصل ہونی چاہئے اور بچوں کو یہ سکھانا چاہئے کہ وہ انٹرنیٹ پر کبھی بھی کسی کو اپنی ذاتی معلومات نہ دیں، اپنی تصاویر یا اپنے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے پاس ورڈ کسی کو نہ دیں اور اگر کبھی کوئی کسی بچے کو نازیبہ پیغام دے تو اس بچے کو فوری طور پر اپنے والدین کو اس بارے میں بتانا چاہئے ۔
پروفیسسر مہناز کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر بچوں کے کمرے کی بجائے گھر کی کسی ایسی جگہ لگایا جائے جہاں گھر کے تمام لوگوں کا آنا جانا ہو، جیسے کہ ٹی وی لاوٴنج، تاکہ بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھی جا سکے۔
ماہرین کے مطابق، بچوں پر سختی سے زیادہ کارآمد ان کی بہتر تربیت ہے، تاکہ وہ انٹرنیٹ کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں اور والدین کو چاہئے کہ جب بچے انٹرنیٹ استعمال کریں تو وہ بچوں کے ساتھ رہیں، تاکہ وہ خود بھی انٹرنیٹ کا استعمال سیکھیں اور اپنے بچوں کی بہتر رہنمائی کر سکیں۔