پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ حکمران جماعت میں شامل جماعتوں نے اگر آمدہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تو اتحاد ٹوٹ جائے گا اور موجودہ حکومت کے حاصل تمام فوائد ضائع ہوجائیں گے۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے علی فرقان کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں خورشید شاہ نے آئندہ انتخابات میں حکمران اتحاد کے اندر ممکنہ تقسیم کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 11 جماعتی اتحاد کو ایک دوسرے کے مقابل اپنے امیدوار کھڑے نہیں کرنے چاہئیں۔
ان کے بقول اتحادی جماعتوں کو 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی 120 نشستوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور ان نشستوں پر گزشتہ انتخاب میں دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت کے امیدوار کی حمایت کرنی چاہئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خیال رہے کہ اس وقت پاکستان میں 11 جماعتی اتحاد اقتدار میں ہے جو کہ گزشتہ سال پارلیمانی عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو وزارت عظمی سے ہٹانے کے بعد حکومت میں آیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے 11 جماعتی اتحاد کے اندر اتفاق برقرار رکھنے اور اپنے اپنے امیدواروں کے درمیان مقابلے سے گریز کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ مختلف جماعتوں کے امیدواروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے نتیجے میں اتحاد ٹوٹ سکتا ہے، جس سے موجودہ حکومت کے متعدد کارنامے اورحاصل کردہ نتائج ضائع ہو سکتے ہیں۔
اتحاد برقرار رکھنے کی ذمہ داری ن لیگ کی ہے!
تجربہ کار سیاستدان کاکہنا ہے کہ حکمران جماعتوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو برقرار رکھ کر آئندہ انتخابات میں ان کی اجتماعی کامیابی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ 11 جماعتوں نے ڈیڑھ سال اقتدار میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور ملک کو مشکل صورت حال سے نکال لیا۔ تاہم ان کے بقول "اصل امتحان اب الیکشن میں ہوگا کہ ہم اقتدار کے لیے جمع تھے یا ریاست کے لیے۔"
وہ کہتے ہیں کہ "اگر ہم الیکشن میں اپنی اپنی سیاست کریں گے، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچیں گے کہ ہمیں وزیر اعظم بننا ہے تو اس سے ہمارا اتحاد متاثر ہوگا۔"
انہوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری مسلم لیگ ن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ دیگر اتحادی جماعتوں کو عام انتخابات میں کس طرح لے کرچلتی ہے کہ اتحاد کا ماحول اور فضاء برقرار رہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اتحاد کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سیٹ تمہاری یہ ہماری بلکہ اتحاد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حددو میں نہ جاتے ہوئے الیکشن لڑیں۔
ان کے بقول "میرے پاس سادہ سا فارمولا ہے کہ اگر اتحاد کو قائم رکھنا ہے تو پی ٹی آئی کی 120 جیتی ہوئی نشتوں پر جہاں مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر ہے وہاں اس کا امیدوار ہو، جہاں پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر رہی وہاں اس کا امیدوار ہو (اور اسی) طرح اگر کوئی اور جماعت ہے تو اس کے امیدوار کے مقابلے میں نہیں آنا چاہئے۔"
SEE ALSO: ہم آزادانہ، اور منصفانہ انتخابات کی حمایت کرتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہحکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے قائدین یہ کہتے رہے ہیں کہ حکومتی اتحاد انتخابی اتحاد نہیں ہے اور سب جماعتیں اپنی اپنی حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیں گی۔
اس سوال پر کہ اتحاد کی صورت میں الیکشن میں جانے سے تو پھر آپ کا مقابلہ صرف پی ٹی آئی سے ہوگا خورشید شاہ نے کہا کہ حکومتی اتحاد پی ٹی آئی کے مقابلے میں وجود میں آیا اور اب بھی ہمارا مقابلہ اسی جماعت سے ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں موجودہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے پی ٹی آئی کے 35 فیصد کے مقابلے میں 65 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
یاد رہے کہ وزارت عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا اور گمان کیا جاتا ہے کہ ان کی جماعت حکمران اتحاد کو انتخابات میں مشکل وقت دے سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ ان کی جماعت کو مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کا تجربہ اچھا رہا جس کے نتیجے میں آئین بچ گیا، قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کر رہی ہے اور پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے گھر بجھوایا گیا۔
نئی مردم شماری پر انتخابات آئندہ سال پرچلے جائیں گے!
پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت خورشید شاہ کے مطابق نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات اگلے سال تک مؤخر ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے بروقت انتخابات کی خواہش اور امید کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ مردم شماری کے نتائج جاری ہونے کے بعد، الیکشن کمیشن کو آبادی کے تازہ ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں بنانے کے لیے، تقریباً چار سے پانچ ماہ کا وقت درکار ہوگا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج جاری کر دیے گئے تو الیکشن کمیشن کے لیے نئی حلقہ بندیاں کرنا لازم ہوگا جس کے لیے چار سے پانچ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی بہت واضح ہے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں اور اسی بنا پر ہماری جماعت نے قومی اسمبل قبل از وقت تحلیل کرنے پر اتفاق کیا تاکہ انتخابات کی تیاری کے لیے 60 کی بجائے 90 روز مل سکیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے رواں ہفتے ہی بیان دیا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے جس کے بعد ملک میں بحث جاری ہے کہ اس کے نتیجے میں انتخابات التواء کا شکار ہوجائیں گے۔
وزیر اعظم کی جانب سے انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہونے کے بیان پر خورشید شاہ نے کہا کہ شہباز شریف نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور انتخابات نئی مردم شماری پر کروانے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
خیال رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہفتے کو طلب کرلیا گیا ہے جس میں مردم شماری کے نتائج جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
SEE ALSO: نئی مردم شماری کے تحت انتخابات: کیا الیکشن وقت پر ہو سکیں گے؟امید ہے سیکرٹ ایکٹ کا غلط استعمال نہیں ہوگا!
خورشید شاہ نے کہا کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی کمیٹی نے اسمبلی کی تحلیل کے لیے 9 اگست کی تاریخ پر اتفاق کیا ہے اور نگران وزیر اعظم کے لیے پانچ نام بھی تجویز کردیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نگران وزیر اعظم کے لیے ایسی شخصیت کا تعین کیا جائے گا جو کہ شفاف اور غیر متنازعہ انتخابات کو یقینی بنا سکے۔
اس سوال کے جواب میں کہ نگران حکومت کے حوالے سے قانون سازی سےشکوک میں اضافہ ہوا ہے کہ انتخابات التواء کا شکار ہو جائیں گے خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ قانون سازی ضروری تھی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کو تفویض کیے گئے اضافی اختیارات جاری منصوبوں کی حد تک ہیں نہ کہ انہیں نئے معاہدے کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترامیم پر بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں سیکرٹ ایکٹ جیسے قانون کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جن رہنماؤں نے اس قانون کے خلاف پارلیمنٹ میں بات کی ان کی رائے بھی درست ہے کہ نئی اسمبلی کو اس پر قانون سازی کرنی چاہئے اور جس صورت حال سے پاکستان گزر رہا ہے اس میں ضروری ہے کہ یہ قانون کسی کے خلاف غلط استعمال نہ ہو۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی سے سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل منظور: کیا تبدیل ہوگا؟خورشید شاہ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ سیکرٹ ایکٹ کا غلط استعمال نہیں ہوگا اور اگر اس کے پیچھے کوئی اور سوچ ہے تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے رواں ہفتے سیکریٹ ایکٹ 1923 میں ترامیم کا بل منظور کیا ہے جس میں زمانۂ جنگ کے ساتھ زمانۂ امن کو بھی شامل کیا جاسکے گا اور سیکیورٹی فورسز اور خفیہ اداروں کو بغیر وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار ہوگا۔
اس قانون پر حکومتی اتحادی جماعتوں کے علاؤہ مسلم لیگ ن کے سینٹرز نے بھی اعتراضات اٹھائے تھے۔
خورشید شاہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا کہ ریاست کو بچاتے بچاتے ہماری سیاست بھی اڑ گئی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ موجودہ حکومت نے ملک کو بحرانی صورت سے باہر نکال دیا ہے تاہم آئندہ آنے والی حکومت کو قلیل کی بجائے طویل مدتی پالیسی اپنانا ہو گی۔