|
دنیا بھر میں 2010 سے 2024 تک پیدا ہونے والے دو ارب بچے جو الفا جنریشن کہلاتے ہیں ، توقع ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی نسل ہوگی ۔ اگرچہ ابھی اس کا سب سے بڑا بچہ لگ بھگ چودہ سال کا ہو گا ، لیکن الفا جنریشن پہلے ہی سے تقریباً ا یک اقتصادی فورس بن چکی ہے ۔
الفا یونانی حروف تہجی کاپہلا حرف ہے۔ اکییسویں صد ی کی پہلی نسل کو یہ نام سماجی تجزیہ کار اور ایک ڈیمو گرافر مارک میک کرنڈل نے دیا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی جنریشن کے لیے مناسب نام ہے جو ایک پوری نئی حقیقت کا آغاز کر رہی ہے۔
اس نسل کے سب سے زیادہ عمر کے افراد اسی سال پیدا ہوئے تھے جب آئی پیڈ منظر عام پر آیا تھا۔
الفا جنریشن ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی فورس کیوں؟
مارک میک کرنڈل الفا نسل کو دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی فورس قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ،کہ وہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں، اور خاصی بڑی مقدار میں ۔ بلکہ وہ اپنے والدین کی خریداری کے فیصلوں پر بھی نمایاں طور پر اثر انداز ہورہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یہ نسل عالمی سطح پر براہ راست اور والدین کی خریداری پر اپنے اثر کی وجہ سے پہلے ہی کئی ٹریلین ڈالر خرچ کر رہی ہے ۔
اسمارٹ فون اور دوسری منسلک ڈیوائسز کی دنیا میں پیدا ہونے والی پہلی نسل کے طور پر ، الفا جنریشن کے افراد پچھلی نسلوں سے بہت پہلے ہی صارفین یا گاہک بن چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ والدین کے کریڈٹ کارڈ یا دوسری ڈیجیٹل کرنسیوں سے منسلک ادائیگیوں کے آن لائن طریقے ہیں۔
SEE ALSO: ایک امریکی سالانہ 873 گھنٹے آن لائن 'ونڈو شاپنگ' میں گزار دیتا ہے: رپورٹوہ ورچوئل کرنسی استعمال کرتے ہوئے ورچوئل چیزیں خرید رہے ہیں ۔ لہٰذا اس نسل کے لیے خرچ کرنے کے تمام دستیاب نئے طریقے اور خرچ کرنے کے ذرائع د ر اصل کمرشلائزیشن میں اضافے کی وجہ بن رہے ہیں۔
الفا جنریشن کی خصوصیات
الفا نسل پیدا ہوتے ہی ٹیکنالوجی میں گھرے ہوئے ماحول میں پروان چڑھ رہی ہے اور اپنا زیادہ وقت اپنے سے پہلے کی کسی بھی جنریشن کی نسبت کمپیوٹر کے اسکرینز ، اسمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کے سامنے گزارتے ہیں ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ آن لائن وقت گزارنے کی وجہ سے یہ نسل عالمی رابطوں کی حامل ہوگی ۔ وہ دنیا بھر کی ثقافتوں، ٹکنالوجیز،اور اختراعات سے بہرہ ور ہو گی جس کے نتیجے میں ان کی دنیا اور تجربات سرحدوں سے ماورا ہوں گے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی نسل ہونے کے علاوہ جنریشن الفا متوقع طور پر زیادہ عرصے تک زندہ رہے گی اور ثقافتی طور پر زیادہ متنوع ہوگی۔ وہ اپنے سے پہلی نسل سے زیادہ تعلیم یافتہ ، زیادہ وقت گھر میں گزارنے والی نسل ہو گی ۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق اس نسل کے دو تہائی افراد ایسے شعبوں میں کام کریں گے جو ابھی تک سامنے ہی نہیں آئے ہیں اور لمبی عمر کے متوقع رجحانات کی وجہ سے اکیسویں صدی کی اس نسل کے بہت سے افراد 22ویں صدی کو دیکھنے کے لیے بھی زندہ رہیں گے۔
ڈیجیٹل دنیا کے فائدے اور نقصانات
ڈیجٹل دنیا میں پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ الفا نسل کو امکانی طور پر ٹیکنیکل اسکلز یا مہارتوں میں بہت زیادہ عبور ر ہو گا ۔ لیکن ان مہارتوں کو سیکھنے کے بارے میں کیا کہیں جو بچوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا کو سیکھنے اور سمجھنے میں مدد کرتی ہیں ، مثال کے طور پر کھیل، سماجی سرگرمیاں،میل ملاپ وغیرہ۔
ایک لائسنس یافتہ پروفیشنل کاؤنسلر شیلی ملیا کا کہنا ہے کہ اس نسل کے بچوں کی سر گرمیوں کا دائرہ صرف آن لائن یا ورچوئل دنیا تک سمٹ گیا ہےاور کھیل کے میدان ، سپورٹس،، آؤٹ ڈور سرگرمیاں ، قدرتی مناظر اور مضافات سے ان کا رابطہ محدود ہو گیا ہے ۔ اور مسلسل ورچوئل دنیا کے ساتھ منسلک ہونے س کی وجہ سے حقیقی دنیا سے منسلک ہونے کی ان کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے ۔
ملیا جو ڈیلس بیپٹسٹ یونیورسٹی میں بچوں اور خاندان سے متعلق شعبے میں ایک پروفیسر بھی ہیں کہتی ہیں کہ اپنے فون یا ٹیبلیٹ پر مصروف الفا نسل کے یہ بچےجب ہر وقت اپنے والدین سے یا یا کسی ایسے فرد سے دور رہتے ہیں جو ان کے مسائل کو ہر وقت فوراًحل کر سکتا ہے ،تو وہ در اصل انسانوں کی بجائے اشیا کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اس انداز میں بڑے ہوتے ہیں کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے گھر کے کسی فرد یا کسی دوست یا ساتھی سے رجوع کرنے کی بجائے ان کے حل اپنے فون کے ذریعے تلاش کرتے ہیں اور اس پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں ۔
میک کرنڈل کا کہنا ہے کہ وہ تمام عمر سیکھتے ہوئے گزاریں گے ۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ان کی تعلیمی بنیاد مضبوط ہوگی تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس سے ان کی بلوغت تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے ۔ کیوں کہ اگر وہ زیادہ عرصے تک گھر میں رہیں گے تو آخر کار وہ ایسے بالغ افراد بن جائیں گے جو ابھی تک اپنے والدین پر انحصار کرتے ہوں گے ۔
ایک بالغ فرد کے طور پر الفا نسل کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ امکانی طور پر ایسے والدین کے ہاتھوں پرورش پائیں گے جن کی توجہ گھر اور دفتر دونوں میں بٹی ہوئی ہوگی ۔وہ ایک ایسی دنیا میں کام کرنے والے ہوں گے جن کے لیے کام اور گھر کے درمیان فرق دن بدن غیر واضح ہو رہا ہوگا خاص طور پر وہ جو ٹیلی ورک کرتے ہیں ۔
ملیا کہتی ہیں کہ ورچوئل یا آن لائن دنیا میں مگن بچوں کے لیے ایک اصل تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی لت میں گرفتار ہیں جو ہمیں وہ سب کچھ نہیں دے سکتیں جن کی ہمیں اصل میں ضرورت ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ بچوں کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں اس احساس کی ضرورت ہوتی ہے کہ انہیں جانا جائے۔ انہیں ضرورت ہوتی ہے کہ ان سے کوئی محبت کرے ۔ انہیں براہ راست گفتگو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہیں اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی مداخلت کےبغیر ڈنر کرنے کی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ پیار ، محبت اور زندگی گزارنے کے لیے درکار دوسری سماجی اور جذباتی اہلیت سیکھتے ہیں۔
ان سب چیزوں سے محرومی یا ان کا فقدان ان کے لیے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین، اساتذہ اور معاشرہ ان مسائل کے ممکنہ حل کو تلاش کرنے کی کوشش کرے۔
وی او اے نیوز