ایران میں گزشتہ ہفتے پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ اور پاسداران انقلاب نے عدلیہ سے کہا ہے کہ واقعے سے متعلق غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں کم از کم نو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کے مطابق ایران کے تین صوبوں میں دو روز کے دوران 9 افراد کو قتل کیا جا چکا ہے جس میں چھ مرد، ایک خاتون اور ایک بچہ شامل ہے۔ تاہم ایرانی حکام نے چھ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ایران کے صوبے کردستان میں چار، کرمان شاہ اور مغربی آذربائیجان میں دو دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ کریک ڈاؤن کے دوران سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ایران میں یہ مظاہرے 16 ستمبر کو پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ ایران کی اخلاقی پولیس نے مہسا کو دارالحکومت تہران کے عوامی مقام پر مبینہ طور پر بال نمایاں کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔
مہسا کے خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے مہسا کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے وہ کومے میں چلی گئی تھی ،بعدازاں اسپتال میں ان کی موت واقع ہوئی۔ تاہم پولیس تشدد کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کسی بھی ثبوت کے بغیر دعویٰ کر رہی ہے کہ مہسا کی موت حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
خاتون کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ مہسا کو کبھی دل کا عارضہ لاحق نہیں تھا۔
پولیس حراست میں مہسا کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد ان کے آبائی شہر سقز میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو دیکھتے ہی دیکھتے پہلے کرد صوبے اور پھر دیگر صوبوں تک پھیل گیا۔
وائس آف امریکہ کی فارسی سروس اور ایران کے مقامی صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا سے جمع کردہ ویڈیوز کے مطابق ایران کے 31 میں سے 23 صوبوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان صوبوں میں فارس، گلستان، تہران، اصفہان، کرمان، مرکزئی، زنجان، خراسان رضوی اور دیگر شامل ہیں۔
واضح رہے کہ وائس آف امریکہ آزادانہ طور پر ان مظاہروں کی وجوہات کی تصدیق نہیں کر سکتا کیوں کہ ایران میں رپورٹنگ پر پابندی ہے۔
سوشل میڈیا پر موجود بعض ویڈیوز میں ایران کی پانچ یونیورسٹی کے طلبہ کو حکومت مخالف احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جن میں سے چار یونیورسٹیاں تہران میں ہیں۔ حکومت مخالف مظاہرے کرنے والے طلبہ کا تعلق تہران میں موجود یونیورسٹی آف تہران، الزہرہ یونیورسٹی، اسلامی آزاد یونیورسٹی سائنس اینڈ ریسرچ، علامہ طبع تابع یونیوسٹی اور سمنان یونیورسٹی سے تھا۔
ایران میں مقبول سوشل میڈیا ایپ انسٹاگرام بھی بند
ایران میں مقبول سوشل میڈیا ایپ انسٹاگرام پر حکومت کی جانب سے رسائی تنگ کیے جانے کے باعث شہریوں کو بدھ کے روز مظاہروں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والے برطانیہ کے ایک گروپ نیٹ بلاکس نے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ایران میں انٹرنیٹ فراہم کرنے والی تمام بڑی سروسز پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
بدھ کو انسٹاگرام کی بندش سے متعلق ایرانی حکومت کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
علاوہ ازیں نیویارک اور استنبول میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں نے بدھ کو مسلسل دوسرے روز ایران میں مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالیں۔ لگ بھگ 150 افراد نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی عمارت سے متصل ڈیگ ہیمرسجولڈ پلازہ کے قریب جمع ہوئے اور انہوں نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
دوسری جانب ایران کی طاقتور پاسداران انقلاب نے ملکی عدلیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف عدالتی کارروائی کرے جو پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والی نوجوان خاتون کی ہلاکت سے متعلق غلط خبریں اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔
تہران میں ہونے والے مظاہروں میں کمی آتی نظر نہیں آ رہی اور جمعرات کو کئی ایرانی شہروں کے اندر گاڑیوں کو نظر آتش کر دیا گیا۔ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ سکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں۔