افغانستان میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں تاحال مقاصد حاصل نہیں ہوسکے ہیں۔ لہذٰا حتمی نتائج کے حصول کے لیے مذاکراتی عمل کی تشکیل نو کرنا ہو گی۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں منصور احمد خان نےٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات اور افغان طالبان کے کردار سمیت کئی اہم امور پر گفتگو کی ہے۔
منصور احمد خان ایسے حالات میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں جب گزشتہ برس امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ بعد ازاں پاکستان نے افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کی قیادت سے مذاکرات کا عمل شروع کیا تو منصور احمد خان ہی افغانستان میں بطور پاکستانی سفیر خدمات انجام دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل کے دوبارہ آغاز سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کالعدم تنظیم کس طرح اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹے گی اور پاکستان کے نظام، ریاست اور قانون کو تسلیم کرے گی۔
ان کے بقول پاکستان کی پہلی ترجیح بات چیت سے حل نکالنے کی ہے۔اگر سیاسی حل نہیں نکلتا تو عسکری حل کا راستہ اور صلاحیت موجود ہے۔ امن مذاکرات اور پرتشدد کارروائیوں کا ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوگا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے۔ایسے حالات میں امن مذاکرات کے اہداف کا حصول بظاہر مشکل دکھائی دے رہا ہے ۔
'افغان طالبان پر بھی دباؤ ڈالنا ضروری ہو گا'
منصور احمد خان نے کہا " میرے خیال میں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت جاری رکھی جانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان پر بھی دباؤ ڈالنا ضروری ہوگا کہ ان کی سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال نہ ہو کیوں کہ یہ دوحہ معاہدے کی اہم شرط ہے۔"
واضح رہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا جس کی مدت ختم ہونے کے بعد رواں ماہ ہی ٹی ٹی پی نے دوبارہ کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ ٹی ٹی پی سوات سمیت دیگر علاقوں میں ایک مرتبہ پھر منظم ہو رہی ہے جب کہ فوج نے مختلف علاقوں میں چوکیاں قائم کرتے ہوئے نقل و حرکت شروع کر دی ہے۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان کی ثالثی پر بات کرتے ہوئے منصور احمد نے کہا کہ طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان، چین اور ازبکستان کو شدت پسند گروہوں سے مذاکرات کی پیش کش کی تھی جسے چین اور ازبکستان نے قبول نہیں کیا تھا۔ لیکن پاکستان نے ملک میں شدت پسندی کی لہر کو دیکھتے ہوئے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔
ان کے بقول افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان دو دہائیوں سے تعلقات ہیں۔ افغان طالبان چاہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر پاکستان صبر سے کام لے کیوں کہ طالبان حکومت کے بقول وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے وعدے پر قائم ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریکِ طالبان پاکستان کے تین سے چار ہزار جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔
'توقع ہے افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لیں گے'
اس سوال پر کہ افغان طالبان کالعدم تنظیم کے حوالے سے پاکستان کی تشویش کو دور کیوں نہیں کررہے؟ منصور احمد خان نے بتایا کہ افغانستان اور پاکستان کی سیکیورٹی قیادت کے درمیان ٹی ٹی پی کے معاملے پر مذاکرات اب بھی جاری ہیں۔ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ ملک میں مکمل کنٹرول اور اس قسم کے مسائل کے حل کے لیے ایک سال کا عرصہ بہت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی افغان طالبان سے توقع ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سنجیدہ ایکشن لیں گے اور پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کا قلع قمع کیا جائے گا۔
ان کے بقول افغان طالبان کے لیے بھی یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے امیر کی بیعت کررکھی ہے تو ان کے لیے یہ سیاسی کے ساتھ ساتھ نظریاتی معاملہ بھی ہے۔
'افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر اعتماد کا فقدان ہے'
سابق سفیر نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مستقل عدم اعتماد پایا جاتا ہے اور عام سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے جغرافیہ، تاریخ اور ثقافت میں مماثلت پائی جاتی ہے اور اس بنا پر اسلام آباد کے اقدامات کو بعض اوقات مداخلت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس تاثر کے سبب پاکستان کے اچھے اقدامات کو بھی طالبان کے مقتدر حلقوں میں مداخلت کے تناظر میں لیا جاتا رہا ہے۔
منصور احمد خان نے کہا کہ پاکستان کے اربابِ اقتدار اور عوام کو اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ امور میں اسے آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے دیکھا جائے۔
'ڈرون حملے پر افغانستان نے باضابطہ شکایت نہیں کی'
کابل میں تعینات سابق سفیر نے کہا کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت پر بعض طالبان وزرا نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا۔ تاہم سرکاری سطح پر طالبان نے اس معاملے پر پاکستان سے کوئی شکایت نہیں کی۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی ڈرونز ایک ہمسایہ ملک کے راستے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
'مسعود اظہر کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ نہیں کیا گیا'
کالعدم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کی حوالگی کے حوالے سے سوال پر منصور احمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کے تبادلے کے معاملات سیکیورٹی اداروں اور خاص چینلز کے ذریعے زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان نے باضابطہ طور پر افغان طالبان سے مسعود اظہر کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کیا۔
گزشتہ ہفتے یہ اطلاعات سامنے آٗئی تھیں کہ پاکستان نے ایک خط کے ذریعے مولانا مسعود اظہر کو تلاش کر کے پاکستان کے حوالے کرنے کا کہا تھا۔ اس پر طالبان حکومت نے مولانا مسعود اظہر کی افغانستان میں موجودگی کی تردید کی تھی۔
طالبان کی عالمی برادری کے ساتھ وعدوں اور یقین دہانیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کی توقعات کا وسیع ایجنڈا ہے اور طالبان نے کچھ توقعات کو پورا کیاہے۔ لیکن مستقبل کے سیاسی نظام، شراکت داری، انسانی حقوق، صحافتی آزادیوں اور دہشت گردی سے متعلق معاملات پر کس طرح قابو پاتے ہیں یہ ابھی دیکھنا ہوگا۔
انہو ں نے مزید کہا کہ افغان طالبان دو دہائیوں کی شورش کے بعد اقتدار میں آئے ہیں اس لیے یہ توقع رکھنا کہ ایک ہی سال میں طالبان تمام توقعات پوری کردیں گے اس قدر آسان نہیں ہے۔
بھارت کی جانب سے افغانستان میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے اقدام پر منصور احمد نے کہا کہ پاکستان کو اس پر کوئی تشویش نہیں لیکن اسلام آباد کو تشویش اس وقت ہو گی اگر بھارت پاکستان کے سرحدی علاقوں میں شورش اور انتشار پیدا کرنے کا سبب بنے گا جو وہ ماضی میں کرتا رہا ہے۔
بھارت پاکستان کی جانب سے اس نوعیت کے الزامات کی بارہا تردید کرتا رہا ہے۔