ایران کے ایک اہم صدارتی امیدوار عبدالناصر ہمتی نے بدھ کے روز کہا کہ اگر انہوں نے ملک میں اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو وہ امریکی صدر بائیڈن سے ملاقات کے لیے تیار ہونگے۔
ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور موجودہ صدارتی امیدوار عبد الناصر ہمتی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات کے لیے امریکہ کو بہتر اور مضبوط اشارے دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال کے تناظر میں امریکہ ایران تعلقات کے لیے نہایت اہم ہے۔
ان کے بقول ’’میرے خیال میں ہم نے ابھی تک صدر بائیڈن کی جانب سے اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دیکھی۔ امریکہ کو پہلے جوہری معاہدے میں واپس آنا چاہئے جس سے اس نے خود چھوڑا تھا۔ اگر ہم نے اس سلسلے کو آگے بڑھتا دیکھا اور ہمارا اعتماد بڑھا تو پھر ہم مزید بات چیت کر سکتے ہیں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
64برس کے ناصر ہمتی ان سات صدارتی امیدواروں میں سے ہیں جنہیں ایرانی سپریم کونسل نے ملک میں 18 جون کے روز شروع ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ وہ صدارتی انتخابات کی دوڑ میں چیف جسٹس ابراہیم رئیسی سے پیچھے ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے پسندیدہ امیدوار ہیں۔
اے پی کے مطابق جہاں ریاست کے تمام معاملات میں خامنائی کا فیصلہ آخری ہوتا ہے وہیں ملک کا صدر داخلی اور خارجی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی ایران کی مذہبی حکومت میں اعتدال پسند جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 2015 میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
لیکن سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے معاہدے سے علیحدہ ہوجانے اور ایران پر لگنے والی سخت پابندیوں کے بعد صدر روحانی کو ملک میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
جہاں عبدالناصر ہمتی نے روحانی کے ساتھ سیاسی طور پر فاصلہ برقرار رکھا ہے، وہیں ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اعتدال پسند ایجنڈے کو برقرار رکھیں گے۔
اے پی کے صحافیوں کی جانب سے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے بیلسٹک پروگرام پر شرائط قبول کے لیے تیار ہے تو انہوں نے کہا کہ ایران سے توقعات جوہری معاہدے کے ڈھانچے کے اندر رکھی جانی چاہییے۔ اس سے زیادہ توقعات نہ ہی سپریم لیڈر کے لیے گوارا ہوں گی اور نہ ہی صدر انہیں مانیں گے۔
اے پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے ہمتی کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
SEE ALSO: 'ایٹمی قوت نہ ہوتے تو نائن الیون کے بعد امریکی حملہ افغانستان پر نہیں پاکستان پر ہوتا'یاد رہے کہ ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ کے طور پر ہمتی نے ایران کی معیشت کو اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا ہے۔ ٹی وی پر نشر ہونے والے دو صدارتی مباحثوں میں انہوں نے پابندیوں کے باعث ایرانی کرنسی کی قیمت کے گھٹنے اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے عوام کی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ ایران میں مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے اور ملک میں بے روزگاری عام ہے۔
ہمتی کا کہنا ہے کہ اگر جوہری معاہدے سے متعلق امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ اس معاملے سے بطور صدر نمٹیں گے۔