ایران کے آخری فرماں روا کے صاحب زادے اور حزبِ اختلاف کی جلا وطن شخصیت رضا پہلوی نے ایران کے عوام سے کہا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ایک نئے نظام کے تحت ایک منتخب بادشاہ کا عہدہ تخلیق کریں۔ تاہم رضا پہلوی نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو انٹرویو میں اس امکان کو رد کیا ہے کہ وہ خود اس عہدے پر متمکن ہوں گے۔
ایران کے حزبِ اختلاف کے جلا وطن زیادہ تر رہنما طویل عرصے سے ملک کے مستقبل کے بارے میں تقسیم کا شکار ہیں۔ پہلوی کے حامی چاہتے ہیں کہ پہلوی ایران میں بادشاہت بحال ہونے کے بعد اس کے سربراہ ہوں۔ دیگر سرگرم کارکن چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں موجودہ آمرانہ اسلامی جمہوریہ کو تبدیل کر کے ایک نئی جمہوریہ قائم کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ولی عہد کے والد رضا شاہ پہلوی کو 1979 کے انقلاب میں بادشاہت سے بر طرف کر دیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران کے مذہبی رہنما اپنے اقتدار سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے اور عشروں سے ملک میں کسی بھی قسم کے اختلاف کو جبراً دبا دیتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق نومبر 2019 میں ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایران کے منقسم جلا وطن اپوزیشن کیمپوں نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو ایرانی ولی عہد کے انٹرویو میں کیے گئے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔
تاہم انہوں نے یہ نئے سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ ولی عہد کی منتخب بادشاہت کی تجویز جمہوری نظام سے کس طرح مختلف ہو گی اور وہ اسلامی نظام کے بعد اس میں کیا کردار ادا کریں گے۔
امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں مقیم ولی عہد پہلوی نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں کہا کہ اگر مستقبل کے بادشاہ کو ملک کے امور میں شریک ہونا ہے تو پھر ایسے شہنشاہ کا انتخاب عوام کو کرنا ہو گا۔ ان کے بقول وہ موروثی بادشاہت کے حق میں نہیں ہیں۔
ولی عہد کا کہنا تھا کہ 21ویں صدی کا ایران سیکڑوں سال پرانے ایران سے بہت مختلف ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک منتخب بادشاہ کے تاحیات اپنے منصب پر قائم رہنے کے حق میں نہیں ہیں۔
انہوں نے منتخب بادشاہ کے طور پر اپنے ممکنہ امیدوار ہونے کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے بارے نہیں سوچ رہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا قومی اور سیاسی مشن اس وقت ختم ہو گا جب ایران کے عوام اپنے مستقبل کے نظامِ حکومت کے لیے ووٹ دینے جائیں گے۔ اور ملک کی قیادت عوام سے ہی ابھر کر سامنے آئے گی۔
رضا پہلوی اس حق میں بھی نہیں ہیں کہ انہیں ایک علامت کے طور پر بادشاہ کے منصب پر فائز کیا جائے جو صرف رسمی ذمہ داریاں پوری کرے اور حکومتی عہدیداروں کی جانب سے لکھی گئی تقاریر پڑھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک ایک علامتی بادشاہ کے طور پر وہ ملک کے لیے کوئی فائدہ مند کردار ادا نہیں کر سکتے۔ ان کے بقول ایران کی آزادی کے لیے ان کی اتنی زیادہ محنت اس لیے نہیں ہے کیوں کہ اس سے ان کا اپنا آزادئ اظہار محدود ہو جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رضا پہلوی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ان کے پہلے کے بیانات پر ان کے حامیوں کے درمیان اختلاف اس لیے تھا کیوں کہ وہ اپنی سوچ پر ایک بحث ہوتے دیکھنا چاہتے تھے تا کہ اس میں وسعت آ سکے۔
ایران کے جلا وطن ولی عہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایران کے عوام کے حقوق کے لیے جد و جہد کرتے رہیں گے اور سخت مؤقف رکھنے والے مسلمان حکمرانوں کے خلاف عوام کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنی جد و جہد ترک کر دی ہے لیکن نہیں میں نے ایسا نہیں کیا۔