اب جب کہ ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد بد امنی جاری ہے پیر کےروز میڈیا نے خبر دی کہ ایرانی پولیس نے ان انتباہوں کو بحال کر دیا ہے کہ خواتین کو سر پر لازمی طور پر اسکارف پہننا چاہئے حتی کہ کار کے اندر بھی۔
تہران میں اسلامی جمہوریہ کی خواتین کے لئے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی پر 22 سالہ ایرانی کرد خاتون امینی کی گرفتاری کے بعد 16 ستمبر کو اس کی موت کے بعد سے ایران مظاہروں کی لپیٹ میں ہے ۔
تہران مظاہروں کو عمومی طور پر فساد ات قرار دیتا ہے ۔
فارس نیوز ایجنسی نے ایک سینئر پولیس افسر کے حوالے سے بتایا کہ پولیس نے ملک بھر میں "نذیر -1 "پروگرام جس کا فارسی میں مطلب ہے" نگرانی" کا نیا مرحلہ شروع کر دیا ہے ۔
فارس نے مزید کہا کہ نذیر پروگرا م جسے 2020 میں شروع کیا گیا تھا کاروں میں حجاب ہٹانے پر تشویش سے متعلق ہے۔
لباس کے ا س ضابطے کو جب 2020 میں لانچ کیا گیا تھا، تو کار مالکان کو ایک ایس ایم ایس ٹیکسٹ میسج بھیجا جاتا تھا جس میں انہیں اپنی گاڑی میں اس ضابطے کی خلاف ورزی کے بارے میں خبر دار کیا جاتا تھا اور انہیں انتباہ کیا جاتا تھا کہ اگر یہ خلاف ورزی دوبارہ ہوئی تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
لیکن ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کئے گئے پیغامات کے مطابق پولیس نے بظاہر قانونی کارروائی کی دھمکی کو ترک کر دیا ہے ۔
SEE ALSO: ایران میں اخلاقی پولیس کی سرگرمیوں میں کمی، مظاہرین کو قابو کرنے لیے دیگر طریقوں کا استعمالاس پیغام میں جسے مبینہ طور پر پولیس نے بھیجا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا کہا گیا ہے کہ آپ کی گاڑی میں حجاب ہٹانے کا مشاہدہ کیا گیا ہے، معاشرے کے اصولوں کا احترام کرنا ضروری ہے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ عمل دوبارہ نہ ہو۔
ایران کی اخلاقی پولیس کو جو گشت ارشاد، یا گائیڈنس پٹرول کے طور پر معروف ہے، یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ عوامی مقامات میں جائے اور لبا س کے سخت ضابطے کے نفاذ کو چیک کرے ۔
مظاہروں کے بعد دار الحکومت تہران کے متمول علاقوں کے ساتھ ساتھ زیادہ اعتدال پسند اور روائتی جنو بی مضافاتی علاقوں میں متعدد خواتین کو کسی ہیڈ اسکارف کے بغیر دیکھا گیا تھا اور انہیں روکا بھی نہیں گیا تھا۔
گزشتہ سال ستمبر سے اخلاقی پولیس کی سفید اور سبز وینز تہران کی سڑکوں پر بہت کم نظر آتی تھیں۔
دسمبر کے اوائل میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل محمد جعفر منتظری کے حوالے سے بتایا گیا کہ اخلاقی پولیس بند کر دی گئی ہے ۔
لیکن ضابطے کے خلاف مہم چلانے والوں کو ان کے تبصروں پر شکوک وشبہات تھے کیوں کہ وہ بظاہر ایک کانفرنس میں پوچھے گئے ایک سوال کا فوری جوا ب تھے نہ کہ پولیس کی نگرانی کرنے والی وزارت داخلہ کی جانب سے کوئی دستخط شدہ اعلان ۔
(اس رپورٹ کا مواداے ایف پی سے لیا گیا ہے )