جوہری سرگرمیوں کے نگران عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر ادارے کے ایرانی حکومت کے ساتھ"اہم اختلافات" اور خدشات موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے کا یہ بیان عالمی معائنہ کاروں کے اس اعلان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات کے معائنے کے لیے کیے جانے والے حالیہ دورے کی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔
دورے کے بارے میں جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے معائنہ کاروں کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دورے کے دوران میں "ایران کے جوہری پروگرام کے تمام متنازع امور کی وضاحت کا طریقہ کار طے کرنے لیے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا"۔
لیکن رپورٹ کے مطابق "ایران اور ایجنسی کے درمیان کسی معاہدے پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے اور دونوں کے درمیان اس معاملہ پر اہم اختلافات موجود ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے ممکنہ عسکری پہلووں پر عالمی ادارے کے سنجیدہ خدشات بدستور برقرار ہیں۔
اسرائیل اور مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ایران شہری مقاصد کے لیے جاری اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں ایٹمی ہتھیار رتیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
قبل ازیں 'آئی اے ای اے' کے لیے ایران کے سفیر نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔
سفیر علی اصغر سلطان نے کہا تھا کہ ایران عالمی ایجنسی کے ساتھ تعاون کے لیے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے اور ایرانیوں کو امید ہے کہ یہ سلسلہ کامیابی سے جاری رہے گا۔
ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے امکان کو رد نہیں کیا ہے جب کہ ایران نے بھی اپنے خلاف کسی فوجی کاروائی کی صورت میں سخت جواب دینے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
لیکن روس، چین اور کئی مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کے ردِ عمل میں کی گئی کوئی بھی فوجی کاروائی مشرقِ وسطیٰ میں بڑے پیمانے کی جنگ کا سبب بن سکتی ہے جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔
رواں ہفتے آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیا امانو نے کہا تھا کہ ایرانی حکام نے ایجنسی کے معائنہ کاروں کو تہران کے نزدیک واقع پارچین نامی فوجی مرکز کے جائزے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔
معائنہ کاروں کو شبہ ہے کہ مذکورہ فوجی اڈے میں زیرِ زمین خفیہ جوہری تنصیبات موجود ہیں۔
عالمی ایجنسی کے سربراہ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ ایران نے ان کے ادارے کے وفد کو سائنس دانوں سے پوچھ گچھ کی اجازت دینے اور اپنی جوہری سرگرمیوں کی ترتیب کے بارے میں نتیجہ خیز معلومات دینے سے بھی انکار کردیا ہے۔
دریں اثنا روس کے وزیرِ اعظم ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ بعض ممالک ایران کے جوہری تنازع کو ایرانی حکومت کی تبدیلی کے لیے فضا سازگار بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں ۔