ایک نوجوان لڑکی ایران کے شہر مشہد کی مرکزی شاہراہ پر اپنی گاڑی روک کر اس کی چھت پر چڑھتی ہے اور اپنے سر سے اسکارف اتار کر ’مرگ بر دیکتاتور‘(ڈکٹیٹر مردہ باد) کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ اس کے پیچھے گاڑیاں رکنا شروع کردیتی ہیں اور ان میں سے بھی لوگ اس کی حمایت میں نکلنے لگتے ہیں اور اس لڑکی کے ہم آواز ہوجاتے ہیں۔
مشہد جہاں اثنا عشری شیعہ مکتب فکر کے آٹھویں امام کا مزار ہے اور یہ ایک مذہبی شہر تصور ہوتا ہے۔ یہاں پرورش پانے والی فاطمہ شمس کا کہنا ہے کہ صرف ایک دہائی قبل خواتین کے لیے مشہد میں کسی ایسے منظر کا تصورکرنا بھی محال تھا۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مشہد میں خواتین کا سڑکوں پر نکل کر اپنی اوڑھنیاں اتار کر جلانا ایک انقلابی تبدیلی ہے۔ ایرانی خواتین اپنے پر لازم کیے گئے حجاب کو ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران ایران میں کئی احتجاجی لہریں اٹھیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے معاشی مشکلات اور بحرانوں سے جنم لیا تھا۔ لیکن موجودہ لہر ایران میں مذہب کی بنیاد پر قائم کی گئی حکومت کی ایک علامت یعنی حجاب کی پابندی کے خلاف اٹھی ہے۔
ایران میں خواتین پر گھر سے باہر نکلتے ہوئے سر کو ’حجاب‘ سے ڈھانپنا لازم ہے، جس میں ان کے سر کے تمام بال چھپے ہونا ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ خواتین کو ایسے ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے کی ہدایت کی گئی ہے، جس میں ان کے جسمانی خد و خال نمایاں نہ ہوں۔
لیکن ایران میں خاص طور پر کئی بڑے شہروں میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنی مرضی سے ڈھیلا ڈھالا اسکارف جس سے پوری طرح سر ڈھکا نہیں ہوتا اور لباس میں بھی کوئی نہ کوئی رعایت نکال لیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایران میں پابندی کا نفاذ کرنے والوں اور ان خواتین کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری رہتا ہے۔
اس بار اس کھیل نے ایک المیے کو جنم دیا جب ’نامناسب‘ حجاب کی بنیاد پر ایران میں لباس اور سماجی طرزِ عمل سے متعلق حکومتی قواعد کو نافذ کرنے والی ایران کی اخلاقی پولیس ’گشتِ ارشاد‘ کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت واقع ہوگئی۔
SEE ALSO: ایران میں حجاب اور لباس کی پابندیاں نافذ کرنے والی پولیس کتنی طاقت ور ہے؟دو ہفتے قبل ہونے والے اس واقعے کے بعد ایران میں ملک گیر احتجاجی لہر اٹھی ہے جس سے کئی شہروں میں بے چینی پھیل چکی ہے۔ ان مظاہروں میں طلبہ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد اور مزدور پیشہ طبقہ بھی شامل ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق احتجاج کے دوران کم و بیش 41 مظاہرین اور پولیس اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق 13 مظاہرین ہلاک جب کہ 1400مظاہرین گرفتار کیے گئے ہیں۔
تہران سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے مطابق گزشتہ ہفتوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کی وجہ سے مظاہرین کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ان خاتون کا کہنا تھا کہ مظاہرین چار چار پانچ پانچ افراد کی ٹولیوں کو جہاں جگہ ملتی ہے احتجاج شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد سیکیورٹی فورسز ان کا تعاقب کرتے ہیں اور انہیں حراست میں لے لیتے ہیں۔
یہ احتجاج ماضی سے کتنا مختلف ہے؟
تہران یونیورسٹی میں بطور طالبِ علم حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہنے والی فاطمہ شمس ایک مصنف اور سماجی حقوق کی رضا کار ہیں۔ وہ 2009 تک ایران میں متحرک رہیں جس کے بعد انہیں ملک چھوڑنا پڑا اور اب وہ امریکہ میں مقیم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بار ہونے والا احتجاج ماضی سے مختلف ہے کیوں کہ اس میں مرکزی کردار خواتین ادا کر رہی ہیں جب کہ مرد اس کی تائید اور حمایت میں ان کے پیچھے نکلے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 13 برس کے دوران جتنی بھی احتجاجی تحریکیں اٹھی تھیں انہیں طاقت کے زور پر دبا دیا گیا۔ ان تحریکوں میں ایران کے قدامت پسند طبقات ہی اس حکومت کی اصل قوت ثابت ہوئے ہیں۔
تاہم فاطمہ شمس کے بقول، اب مشہد اور مذہبی علما کا مرکز تصور ہوے والےقم جیسے قدامت پسندوں کے اکثریتی شہروں میں احتجاج ہورہا ہے۔
ایران کی تاریخ کے اتار چڑھاؤ
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران کسی احتجاجی تحریک کی لپیٹ میں ہے۔ اس ملک کی حالیہ تاریخ ایسے کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکی ہے۔ایران میں 1979 کے انقلاب سے قبل ہوش سنبھالنے والی نسل نے یہاں لباس سے متعلق انتخاب کے لیے آزادی کا دور دیکھا ہے۔
SEE ALSO: ایران: صدر ابراہیم کا مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد احتجاج سے سختی سے نمٹنے پر زوراس کے بعد دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والوں سے لے کر سخت گیر مذہبی طبقے نے بھی شاہ کے خلاف انقلاب برپا کرنے والی تحریک میں حصہ لیا۔ تاہم جب شاہ کی حکومت ختم ہوئی تو آیت اللہ روح اللہ خمینی اور ان کی پیروی کرنے والوں نے اس تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والا خلا میں اپنی جگہ بنائی اور اقتدار اپنے قابو میں کرلیا۔ جس کے بعد انہوں نے یہاں ایک خالص مذہبی تصور کی بنیاد پر حکومت قائم کردی۔
حکومت کے قیام کے بعد 7 مارچ 1979 میں آیت اللہ خمینی نے ایران میں خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا۔ اتفاق سے اس کے اگلے ہی دن خواتین کا عالمی دن تھا۔ اس روز ہزاروں خواتین تہران سمیت ایران کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس احتجاج کا حصہ رہنے والی سوسن میبود کا کہنا ہے کہ اس تحریک کا محرک صرف حجاب کا مسئلہ نہیں تھا کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اب عورتوں سے ان کے حقوق لے لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ آج آپ دیکھ رہے ہیں اس کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔ ایران میں حکومتی جبر کے خلاف ایران کی خواتین کے آواز اٹھانے کی ایک پوری تاریخ ہے۔
لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والے ایرانی تاریخ دان پروفیسر روحان الوندی کا کہنا ہے کہ حجاب ایران میں احتجاج کی علامت بن چکا ہے۔
ان کے مطابق ایران میں حجاب پر پابندی بنیادی طور پر لوگوں کی ذاتی زندگی پر حکومت کے کنٹرول کا اظہار ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے جینڈر اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ سے منسلک سماجی کارکن عشا مومنی کا کہنا ہے کہ ایک صدی یا اس سے پہلے حجاب اشرافیہ کی خواتین تک مخصوص تھا۔ دیہی علاقوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے حجاب پہننا آسان نہیں تھا۔ وہ ’روسری‘ یا سر پر روایتی رومال رکھا کرتی تھیں۔ یہ مذہب کے بجائے کلچر کا حصہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر سے خواتین احتجاجی مظاہروں کی اولین یا مرکزی صفوں میں شامل رہی ہیں۔ 1905 میں ایران میں کئی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔
اس کے بعد ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی نے 1936 میں ’کشفِ حجاب‘ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا تھا جس کے تحت خواتین کے چادر اور اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ شاہ رضا پہلوی کا یہ فرمان ایران کے معاشرے کو جدت اور مغربی طرز کے مطابق ڈھالنے کے لیے کیے گئے ان کے اقدامات کا حصہ تھا۔
لیکن ایران میں مذہبی اور روایتی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس شاہی فرمان پر شدید ردِعمل دیا۔ پابندی کے باجود کئی خواتین حجاب اوڑھتی رہیں اور ان کے خلاف بھی حکومت کارروائی کرتی رہی۔
تاہم 1941 میں سوویت یونین اور برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ میں شاہِ ایران کی جرمنی کی حمایت کے خدشے کے پیشِ نظر ایران پر حملہ کرکے انہیں معزول کردیا۔ ان کی جگہ شاہِ ایران کے ہی بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی شاہِ ایران بن گئے۔
محمد رضا شاہ پہلوی کے حکومت میں آںے کے بعد روایت پسند حلقوں نے حجاب کو لازم قرار دلانے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ شاہ نے اپنے والد کی طرز پر مغربی رہن سہن کے فروغ کی پالیسی جاری رکھی۔
اس کے بعد جب انقلاب کا دور آیا تو ایران کا عمومی ماحول یہ تھا کہ ایک ہی خاندان کی خواتین میں سے بعض حجاب پہنتی تھیں اور بعض اس کی پابندی نہیں کرتی تھیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ خواتین پر لباس اور سر ڈھانپنے سے متعلق پابندیوں کا نفاذشروع ہوا اور اس میں سختی بھی آنے لگی۔ ابتدا میں حجاب کے لیے آیت اللہ خمینی کی تاکید اور تائید کو بنیاد بنا کر ان کے حامیوں نے حجاب نہ پہننے والی خواتین کو زد و کوب کرنا شروع کیا۔
حکومت نے خواتین پر حجاب کی پابندی اور لباس سے متعلق اپنے ضوابط لاگو کرنے کے لیے سرکلرز جاری کرنا شروع کردیے اور 1983 میں اس سلسلے میں باقاعدہ قانون بنا دیا گیا۔
اس قانون کے تحت حجاب نہ پہننے پر 74 کوڑوں کی سزا مقرر کردی گئی۔ بعد کے برسوں میں اس پابندی پر عمل درآمد کے لیے ’گشتِ ارشاد‘ کے نام سے باقاعدہ ایک اخلاقی پولیس بھی متعارف کرا دی گئی۔ حال ہی میں مہسا امینی کی موت اسی پولیس کی تحویل میں ہوئی ہے۔
’اصلاح پسندبھی حجاب کی مخالفت نہیں کرسکتے‘
عشا مومنی کا کہنا کے ماضی میں انہوں نے 2008 کے دوران صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اٹھنے والی ’گرین موومنٹ‘ کو بھی کور کیا ہے۔ لیکن حجاب کے مسئلے پر اٹھنے والی حالیہ تحریک سے لگتا ہے کہ ایران کی حکومت کی بنیادیں ہل گئی ہیں۔
ان کے مطابق ماضی میں اصلاحات کے لیے کئی تحریکیں اٹھیں، لیکن لوگ اب کسی بہتری سے نا امید ہوتے جا رہے ہیں۔
ایران میں 2009 کے دوران ہونے والے احتجاج کی قیادت ’اصلاح پسند کررہے تھے۔ یہ تحریک ایران میں بتدریج آزادی دینے کی بات کرتی تھی۔ لیکن ایران میں کوئی سیاسی جماعت چاہے وہ ترقی پسند ہو یا اصلاح پسند، حجاب کی پابندی ختم کرنے کی حمایت نہیں کرتی۔
فاطمہ شمس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لیے ایران میں وہ کبھی کبھار حجاب بھی پہنا کرتی تھیں۔ 2009 کے مظاہروں میں جب انہوں نے بعض مواقع پر حجاب اتار ا تو نہ صرف حکومتی ذرائع ابلاغ نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ اصلاح پسند تحریک کی قیادت نے بھی ان سے راہیں الگ کرلیں۔
حجاب پر اختلاف کی وجہ سے فاطمہ شمس کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی تھی۔
’حکومت کو بدلنا ہوگا‘
ایران میں بڑھتی ہوئی معاشی پابندیوں کی وجہ سے احتجاج کی کئی تحریکیوں سامنے آچکی ہیں اور اسی وجہ سے ایران کی قیادت بھی زیادہ سخت گیر ہوتی جارہی ہے۔
SEE ALSO: ایران کے سپریم لیڈر کی خرابیٔ صحت: جانشین کون ہو سکتا ہے؟گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریب تصور ہونے والے ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے لیے ان کے حریف مضبوط امیدواروں کو الیکشن کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
ایرانی تاریخ کے کم ترین ٹرن آوٹ کے باوجود ابراہیم رئیسی صدر منتخب ہوئے۔
لیکن پہلے ہی امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والی کرد کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مہسا امینی کی پولیس تشدد سے موت نے ایران میں احتجاج کے ایک نئے سلسلے کو جنم دیا ہے۔
فاطمہ شمس کا کہناہے کہ اس حالیہ تحریک نے ایران کی مذہبی حکومت کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اگر یہ حکومت اپنی بقا چاہتی ہے تو اسے حجاب کی پابندی ختم کرنا ہوگی جس کا مطلب ہے کہ اسے اپنی سیاسی فکر میں تبدیلی لانا ہوگی البتہ اس وقت حکومت اپنے سیاسی نظریات میں کسی تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)