ایران کا 210 کلوگرام 20 فی افزودہ یورینیئم ذخیرہ کرنے کا دعویٰ

تہران میں ایران کے جوہری توانائی کے قومی دن کے موقعے پر نئے جنریشن کے ایرانی سینٹری فیوجز کی نمائش (فائل فوٹو)

ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے جمعے کے روز کہا ہے کہ اس کا 20 فی صد شرح کے افزودہ یورینئم کا ذخیرہ 210 کلوگرام (463 پاؤنڈز) تک پہنچ گیا ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت کیا گیا ہے جب مغربی ملکوں کے ساتھ جوہری تنازع پر مذاکرات ہونے والے ہیں۔ ایران کے اس اعلان کو ایک تازہ ترین جارحانہ انداز خیال کیا جا رہا ہے۔

اعلیٰ درجے کی افزودہ یورینئم کی اس مقدار کا دعویٰ ایرانی جوہری توانائی کے ادارے کے ترجمان، بہروز کمال وندی کے حوالے سے سامنے آیا ہے، جسے نیم سرکاری خبر رساں اداروں 'تسنیم' اور 'فارس' نے جاری کیا ہے۔

سال 2015ء کے تاریخی جوہری معاہدے کی رو سے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین یہ بات طے ہوئی تھی کہ ایران یورینئم کو 3 اعشاریہ 67 فی صد کی شرح سے زیادہ افزودہ نہیں کرے گا۔ 90 فی صد کی شرح سے زائد افزودگی کی سطح کو نیوکلیئر ہتھیار تشکیل دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

کئی ماہ کی تاخیر کے بعد یورپی یونین، ایران اور امریکہ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ 29 نومبر سے ویانا میں معاہدے پر بالواسطہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔

نیوکلیئر معاہدے میں، جسے عام طور پر 'جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے، جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عوض ایران کو معاشی مراعات دینے کے لیے کہا گیا تھا اور یہ کہ اس کا مقصد ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنا ہے۔ ایران اس بات پر مصر ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے۔

کمال وندی نے یہ بھی کہا کہ ادارے نے اب تک 60 فی صد شرح کے افزودہ یورینئم کا 25 کلوگرام پیدا کیا ہے، یہ افزودگی کی وہ سطح ہے جو جوہری ہتھیار تشکیل دینے کی صلاحیت رکھنے والے ملکوں کے پاس ہوا کرتی ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران امریکہ نے یک طرفہ طور پر 2018ء میں اس نیوکلیئر معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، لیکن برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس معاہدہ برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہے ہیں۔

جان بوجھ کر معاہدے کی خلاف ورزی پر مبنی ایران کی حکمت عملی کو یورپ پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے جس کا مقصد امریکہ کی جانب سے معاہدے سے الگ ہونے کے بعد پھر سے عائد کی گئی تعزیرات کی وجہ سے ایران کی مفلوج معیشت کو سہارا دینا ہے۔

پندرہ ستمبر کو ایران کے جوہری توانائی کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر ملکوں کی جانب سے، بقول ان کے، وعدہ وفا نہ کرنے کی بنا پر ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگراں ادارے کی جانب سے نصب کردہ نگرانی کے کیمرے ہٹا دیے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور یورپی یونین کے سربراہان نے گزشتہ ہفتے ایران پر تنقید کی تھی کہ ایران نے، جیسا کہ دیکھا گیا ہے، یورینیئم کی بلند سطح پر افزودگی جاری رکھی ہوئی ہے اور اس طرح کے اشتعال انگیز اقدامات میں اضافہ کر رہا ہے۔

اب جب کہ ویانا میں مذاکرات تعطل کا شکار ہیں، ایران نے ان حدود کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے جو معاہدے میں طے کی گئی تھیں۔ ایران کم مقدار میں اعلیٰ درجے کی یورینیئم کی افزودگی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کا ذخیرہ کر رہا ہے، جس سے جوہری ہتھیار تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام محض پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔