|
ویب ڈیسک — تہران کی ایک یونیورسٹی میں بطور احتجاج کپڑے اتارنے والی طالبہ کے حوالے سے ایران کی عدلیہ نے کہا ہے کہ ان کے خلاف فردِ جرم عائد نہیں کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عدلیہ کے ترجمان اصغر جہانگیر نے ایک نیوز کانفرنس میں لڑکی کا نام لیے بغیر بتایا کہ چوں کہ انہیں اسپتال بھیجا گیا تھا اور یہ پتا چلا تھا کہ وہ بیمار ہیں تو انہیں ان کے گھر والوں کے حوالے کر دیا گیا اور ان کے خلاف کوئی عدالتی مقدمہ دائر نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل نومبر کے اوائل میں انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک طالبہ کو تہران کی اسلامک آزاد یونیورسٹی میں چلتے ہوئے اور اپنا انڈرویئر اتارتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں بسیج ملیشیا کے ارکان کی جانب سے خاتون کو ہراساں کیا گیا تھا اور ان کا اسکارف اور کپڑے پھاڑ دیے تھے۔ بعد ازاں خاتون احتجاجاً کپڑے اتار کر یونیورسٹی کے باہر بیٹھ گئیں اور صرف اپنے زیرِ جامہ میں سڑک پر چلنے لگی تھیں۔
اس واقعے پر ایران میں حکام کی جانب سے سخت ردِ عمل دیکھا گیا تھا۔
ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ہیڈ اسکارف اور موزوں کپڑے پہننا لازم ہے۔
پیرس میں ایرانی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا کہ ابتدائی اشاروں سے یہ پتا چلتا ہے کہ طالبہ کو "خاندانی مسائل اور ایک نازک نفسیاتی حالت" کا سامنا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ان کے گھر والوں اور ان کے ساتھ پڑھنے والے طلبہ سمیت خاتون کے قریبی افراد نے ان میں غیر معمولی رویے کے سائنز پہلے ہی دیکھ لیے تھے۔
جامعات کے امور کو دیکھنے والے ایران کے وزیرِ سائنس حسین سیمائی نے طالبہ کے اس فعل کو ’غیر اخلاقی اور غیر مہذب‘ قرار دیا تھا۔ ان کے بقول طالبہ کو یونیورسٹی سے بے دخل نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "جو لوگ اس فوٹیج کو دوبارہ پبلش کر رہے ہیں وہ جسم فروشی پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ نہ تو اس کا اخلاقی نہ مذہبی جواز ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا کہ خاتون کو سیکیورٹی حکام کی جانب سے لازمی پردے کے نفاذ کے خلاف احتجاجاً کپڑے اتارنے پر پر تشدد طریقے سے گرفتار کیا گیا۔
SEE ALSO: ایران: نوبیل انعام یافتہ نرگس محمدی کی سزا میں مزید چھ ماہ کا اضافہایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ موہاجیرانی نے گرفتاری کے دوران پُرتشدد طریقہ اپنانے اور اسلامی ڈریس کوڈ کے واقعے سے اس کے تعلق کی تردید کی ہے۔
ان کے بقول یہ مسئلہ دراصل کچھ اور تھا۔ اس سطح کی عریانی کو کہیں قبول نہیں کیا جاتا۔
واضح رہے کہ ایران میں ستمبر 2022 میں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت ہوئی تھی۔
امینی کو خواتین کے لیے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ایران کی اخلاق پولیس نے گرفتار کیا تھا۔
مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران میں مہینوں طویل احتجاج کیا گیا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔