ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کے روز مسلمان ملکوں پر زور دیاہے کہ وہ حماس کے مہلک حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری کے جواب میں تل ابیب کے ساتھ تیل کی برآمدات سمیت تجارت روک دیں۔
خامنہ ای نے تہران میں طلباء کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اسلامی حکومتوں کو ان جرائم کو تیزی سے ختم کرنے پر زور دینا چاہیے۔ مسلم ممالک کو صیہونی حکومت (اسرائیل) کے ساتھ اقتصادی تعاون نہیں کرنا چاہیے،"
انہوں نے "تیل اور خوراک کی برآمدات پر پابندی لگانے" کا مطالبہ کیا۔ خامنہ ای نے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کا نام لیتے ہوئےان مغربی حکومتوں پر تنقید کی جو ان کے الفاظ میں "فلسطین کے خلاف کھڑی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ "مسلم دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ غزہ کی آبادی پر کون دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ صرف صہیونی حکومت کی بات نہیں ہے۔"
SEE ALSO: غزہ پر بمباری: بولیویا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیےاسی اثنا میں خبر رساں ادارے " رائٹرز " نے اطلاع دی ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے بدھ کو انتباہ کیا کہ اگر غزہ کی پٹی پر حملے جاری رہے تو "سخت نتائج" ہوں گے، یہ ایران کی طرف سے وارننگز کے سلسلے میں تازہ ترین ہے، جو غزہ میں حماس اور خطے میں دیگر مقامات پر ملیشیاؤں کی حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے انقرہ میں کہا کہ اگر غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی نہ کی گئی اور حملے تیزی سےجاری رہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
امریکہ اور اسرائیل نے خطے میں وسیع علاقے میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں پر حملے کیے ہیں جو بقول ان کے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بلا اشتعال کیے گئےحملوں کےجواب میں تھے ۔جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ غزہ کا تنازع ایک وسیع جنگ کو بھڑکا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایرانی وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی نے "کچھ یورپی ممالک جو" اسرائیل کی مدد" کرتے ہیں کو مسلمانوں کو ناراض نہ کرنے کے بارے میں خبر دار کیا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق، 7 اکتوبر کو حماس کے مسلح جنگجوؤں نےسرحد پار سے دھاوا بولا اور 1,400 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق، بمباری کی مہم میں 8,500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
ایران نے، جو حماس کی مالی اور عسکری حمایت کرتا ہے، عسکریت پسند گروپ کے اسرائیل پر حملے کو "کامیابی" قرار دیا تھا لیکن اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا کہنا ہے کہ ایران مزاحمتی گروپوں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ گروپ آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے ایران پر مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج پر حملوں میں "فعال طور پر سہولت کاری" کا الزام عائد کیا ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی اور رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی ہے۔