ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اپنے زیر تحویل چار امریکیوں کی رہائی کے بدلے اپنے قیدیوں کی رہائی نہیں بلکہ پیسے چاہتا ہے۔
امریکہ اور ایران کے مذاکرات کار گزشتہ سال اپریل سے شاذ و نادر ہی ہونے والے قیدیوں کے ممکنہ تبادلے پر بات چیت کر رہے ہیں ، جب انہوں نے ویانا میں ایران کے دنیا کی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی پر بالواسطہ مذاکرات شروع کیے تھے۔
حالیہ برسوں میں ایران کے عہدیداروں نے بار بار یہ کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ قیدیوں کا مکمل تبادلہ چاہتے ہیں جس میں امریکہ ان تمام ایرانی شہریوں کو رہا کرے گا، جن کو تہران کے بقول، غیر منصفانہ طور پر اس سبب واشنگٹن نے گرفتار کر رکھا ہے کہ انہوں نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے 24 جنوری کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے اور جوہری معاملات پر کم وقت میں ایک پائیدار معاہدے تک پہنچ سکتا ہے، بشرطیکہ امریکہ کی طرف سے اس بارے میں سیاسی عزم موجود ہو۔
ایران یا امریکہ، کسی بھی فریق نے امریکی تحویل میں رکھے گئے یا مقدمات کا سامنا کرنے والے ایرانیوں کی فہرست جاری نہیں کی۔
تاہم، وائس آف امریکہ کی فارسی سروس نے محکمہ انصاف کے ڈیٹا بیس کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ سولہ ایرانی شہریوں کو امریکہ کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے یا وفاقی جرائم کی بنیاد پر مقدمات کا سامنا کرنے سے پہلے زیر نگرانی بنا تحویل زندگی گزار رہے ہیں۔
SEE ALSO: جوہری مذاکرات کی بحالی کی کوشش، امریکہ نے ایران پر پابندیاں نرم کر دیںایران کے اندر دوہری شہریت رکھنے والے چار ایرانی امریکی، تہران کے بقول، سکیورٹی امور کی خلاف ورزی پر جیلوں میں بند ہیں یا پھر ان کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ امریکہ کا موقف ہے کہ ایران نے ان شہریوں کو اس لیے تحویل میں لے رکھا ہے کہ ان کو سودے بازی کے لیے استعمال کر سکیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی طرح وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ان ایرانی امریکیوں کو واپس لے آئے گی۔
جن ایرانی امریکیوں کو تہران نے قید کر رکھا ہے ان میں اقوام متحدہ کے سابق عہدیدار باقر نمازی، ان کے بزنس مین صاحبزادے صائمک نمازی، مراد تہباز (ماہر ماحولیات) اور عماد شرقی شامل ہیں۔
ایران کی طرف سے قیدیوں کی رہائی میں دلچسپی میں کمی
مسئلے سے واقف ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ایرانی عہدیدار امریکی جیلوں میں بند یا مقدمات کا سامنا کرنے والے اپنے شہریوں کی رہائی میں اس سے بظاہر کم دلچسپی رکھتے ہیں جتنی وہ اس طرح کے کیسز پر گفتگو کے دوران پہلے ظاہر کیا کرتے تھے۔ ذریعے نے درخواست کی ہے کہ ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے تاکہ امریکہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کے معاملے پر سفارتی کوششوں کو نقصان نہ پہنچے۔
SEE ALSO: چارامریکی شہریوں کی رہائی کے بغیرایران سے جوہری معاہدہ ناممکن: امریکی خصوصی ایلچیایران نے اس سے پہلے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کے بعد امریکہ سے اپنے دو قیدیوں کو رہا کروایا تھا۔
قیدیوں کی رہائی بیان دینے کے لیے اچھا نکتہ ہے
یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلئر ایران (UANI) کے پالیسی ڈائریکٹر جیسن براڈسکی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک علیحدہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ایران اپنے ان شہریوں کی رہائی کا اعادہ کرتا ہے جن کو وہ امریکہ کے اندر جبر کا سامنا کرنے والے شہری قرار دیتا ہے۔ ان کے بقول، تہران کے لیے گفتگو کا یہ اچھا نکتہ ہے۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ تہران کبھی تسلیم نہیں کرے گا کہ ان کی ترجیح منجمد ایرانی اثاثے ہیں کیونکہ اس بات کو ایرانی عوام پسند نہیں کریں گے۔
براڈسکی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے چار شہریوں کے بدلے ایران کے منجمد اثاثے بحال کر دیے تو اس سے ایران کو حوصلہ ملے گا کہ وہ مزید امریکیوں اور دیگر مغربی شہریوں کو گرفتار کرے اور ان کو مستقبل میں اپنا یرغمالی بنا لے۔
یہ تاحال واضح نہیں ہے کہ امریکہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے عوض کیا کچھ دینے پر غور کرے گا۔ وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کے رپورٹر نے یہ معاملہ محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار کے سامنے پیر کے روز فون پر ہونے والی بریفنگ میں رکھا۔ تاہم انہوں نے اس معاملے کو ’ مذاکرات کی حساسیت‘ گردانتے ہوئے اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
’’ ہمارے نزدیک چاروں امریکی شہریوں کی واپسی بلاشبہ ہماری ترجیح ہے اور ہم کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جس سے ان کی واپسی یا ان کے ساتھ ایران کے رویے میں پیچیدگی پیدا ہو‘‘
2019 کی ایف بی آئی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی طویل عرصے سے یہ حکمت عملی ہے کہ اغوا کاروں کو تاوان ادا نہ کیا جائے۔
جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے پابندیاں ختم کی جائیں: ایران
ایک اور پیش رفت میں، رائٹرز کے مطابق، ایران نے پیر کے روز کہا ہے کہ سال دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے امریکہ کو تہران پر عائد پابندیاں ہٹانے میں سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے.
ویانا میں آٹھ أدوار کے بعد یہ مذاکرات 28 جنوری سے تعطل کا شکار ہیں اور مذاکرات کار صلاح مشورے کے لیے اپنے اپنے دارلحکومتوں میں واپس جا چکے ہیں۔ امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے ایران رابرٹ مالے نے اتوار کے روز کہا تھا کہ وہ جلد واپس تہران جائیں گے۔ ان کا اصرار تھا کہ معاہدہ اب بھی بحال ہو سکتا ہے۔
(خبر کا کچھ مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)