بائیڈن انتظامیہ نے جمعے کو ایران کے سول جوہری پروگرام پر امریکہ کی پابندیوں میں نرمی کی ہے۔ یہ اقدام ایسے موقع پر سامنے آیا جب 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق مذاکرات اہم موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔
ایک طرف امریکہ کے مذاکرات کار ویانا میں اہم اجلاس کے لیے روانہ ہوئے ہیں تو وہیں امریکہ کے سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران کے سول جوہری پروگرام کو دی گئی چھوٹ دوبارہ بحال کر دی ہے۔ یہ سہولتیں ایران سے سابق صدر ٹرمپ نے معاہدے سے علیحدہ ہوتے ہوئے واپس لے لی تھیں۔
ان نرمیوں کے ذریعے امید کی جا رہی ہے کہ ایران معاہدے میں واپس آنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط پر اس لیے عمل نہیں کر رہا کیوں کہ امریکہ اس معاہدے سے پہلے علیحدہ ہوا تھا۔
تہران کا مطالبہ ہے کہ معاہدے کے تحت پابندیوں پر جو نرمی کی گئی تھ وہ سب دوبارہ سے دی جانی چاہیے۔
جمعے کے روز پابندیوں میں نرمی کے بعد روس، چین اور یورپ کی کمپنیوں کو ایران کے جوہری پلانٹ کو غیر عسکری آلات فراہم کرنے پر پابندیاں لگنے کا خطرہ باقی نہیں رہے گا۔
صدر ٹرمپ نے ایران کے جوہری پلانٹ کو سول حیثیت میں جو نرمیاں فراہم کی گئی تھیں انہیں واپس لے لیا تھا۔ صدر ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بدترین سفارتی ناکامی تھی۔ انہوں نے ایران پر انتہائی دباؤ ڈالنے کی پالیسی جاری رکھی تھی۔
صدارتی امیدوار کے طور پر صدر بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران امریکی جوہری معاہدے میں لوٹ آئیں گے۔ لیکن اس سلسلے میں ابھی تک بہت کم پیش رفت ہو سکی ہے۔ امریکی انتظامیہ کے حکام کا کہنا ہے ایران کو دی گئی چھوٹ کا اقدام اس معاہدے کو بحال کرنے کی کوششوں میں سے ایک ہے۔
ان ناقدین کا، جنہوں نے صدر ٹرمپ کے اس معاہدے سے علیحدہ ہونے کی حمایت کی تھی، کہنا ہے کہ اگر ایران کو نرمی دی جانی ہے تو اس سے بھی اس سلسلے میں چھ اقدامات کرنے چاہیے۔
امریکی تھنک ٹینک ڈیفنس آف ڈیماکریسی کے سینئر ایڈوائزر رچ گولڈ برگ نے کہا کہ مذاکراتی لحاظ سے اس اقدام سے یوں محسوس ہوگا کہ امریکہ کو اس معاہدے کے بحال کرنے کی جلدی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نرمی معاہدے کے ہونے سے بھی پہلی کر دی ہیں۔ یہ تو ہر بات پر ہاں کہنے والا معاملہ ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک سینئر افسر جو اس معاملے کی معلومات رکھتے ہیں، نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا ہے کہ پابندیوں میں نرمی ایران کے لیے مراعات شمار نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق یہ اقدام امریکی قومی مفاد ، خطے اور دنیا کے حق میں ہے۔