ایران اورعالمی طاقتوں کےوفود ترکی پہنچ گئے ہیں جہاں ایک برس کے تعطل کے بعد ہفتے کو تہران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہورہا ہے۔
براہِ راست مذاکرات سےایک روز قبل ایران اور'پی5 +1' کےنام سے معروف گروپ میں شامل ممالک امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے نمائندوں نے جمعہ کو ابتدائی ملاقاتیں کیں۔
مذاکرات کا مقصد ایران کواپنا جوہری پروگرام ترک کرنے پرآمادہ کرنا ہے جس پر مغربی ممالک کو تحفظات ہیں۔ مغرب کا موقف ہےکہ ایران جوہری ہتھیار تیارکرنا چاہتا ہے لیکن ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
مذاکرات میں امریکہ کی نمائندگی قومی سلامتی کے نائب مشیر بین رہوڈز کررہے ہیں جنہوں نے مذاکرات کو "پہلا اچھا قدم" قرار دیا ہے۔
جمعے کواستنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رہوڈز نے کہا کہ جوہری پروگرام کے پُرامن ہونے کے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ایران کے کاندھوں پر ہے کیوں کہ، ان کے بقول، وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔
قبل ازیں، رواں ہفتے ایران کے اعلیٰ جوہری مذاکرات سعید جلیلی نے کہا تھا کہ ان کا ملک مذاکرات میں نئے اقدامات تجویز کرے گا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ایرانی عہدیدار نے خبردار کیا تھا کہ مغربی دنیا کی جانب سے ان کے ملک پر دباؤ بڑھانے کا الٹا اثر ہوگا۔
جلیلی نے قرار دیا تھا کہ ایران کے خلاف "طاقت کی زبان" استعمال کرنے کی کوششیں بھی بے اثر ہوں گی۔
مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔