اتوار کو رمادی کے صوبائی دارلحکومت میں خود کش حملہ اور کار بم دھماکہ ہوا، جن واقعات میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کا نشانہ وہ سوگوار تھے جو ایک عراقی پولیس اہل کار کے جنازے کے جلوس میں شامل تھے
واشنگٹن —
منتشر ہونے والے ایک دھڑے کی قیادت میں پیش قدمی کرنے والے سنی باغیوں نےعراق کےمغربی صوبہٴانبار کےتین مزید قصبہ جات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، ایسے میں جب وہاں سےعراقی بری افواج کا انخلا کا عمل جاری تھا۔
سلامتی سے متعلق عہدے داروں نے کہا ہے کہ اب رعا، انا اور رتبیٰ کا کنٹرول دولت اسلامیہ فی عراق ولشام اور لیواں کے پاس ہے۔
دریں اثنا، اتوار کے روز رمادی کے صوبائی دارلحکومت میں ایک خود کش حملہ اور ایک کار بم دھماکہ ہوا، جن واقعات میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ وہ سوگوار تھے جو ایک عراقی پولیس اہل کار کے جنازے کے جلوس میں شامل تھے۔
ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں، امریکی صدر براک اوباما نے متنبہ کیا ہے کہ باغیوں کی طاقت مزید بڑھ سکتی ہے جس کے باعث مشرق وسطیٰ کے دیگر ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتے ہیں۔
امریکی رہنما نے کہا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ ’چوکنہ‘ رہے۔ تاہم، دکھاوے کا کوئی کھیل نہیں کھیلا جائے گا؛ اور ہر اس ملک میں امریکی فوج نہیں بھیجی جا سکتی، جہاں جہاں یہ تنظیمیں سر اٹھاتی ہیں۔
دریں اثنا، عراق کے منقسم رہنماؤٕں کو متحد کرنے اور باغیوں کو پسپہ کرنے کے لیے امریکہ نے نئی سفارتی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔
ادھر، مشرق وسطیٰ اور یورپ کا دورہ شروع کرنے کے لیے، امریکی وزیر خارجہ جان کیری مصر پہنچ چکے ہیں، جِس کا مقصد خاص طور پر عراق کے بارے میں اپنے ساجھے داروں سے صلاح و مشاورت کرنا ہے۔
سلامتی سے متعلق عہدے داروں نے کہا ہے کہ اب رعا، انا اور رتبیٰ کا کنٹرول دولت اسلامیہ فی عراق ولشام اور لیواں کے پاس ہے۔
دریں اثنا، اتوار کے روز رمادی کے صوبائی دارلحکومت میں ایک خود کش حملہ اور ایک کار بم دھماکہ ہوا، جن واقعات میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان حملوں کا نشانہ وہ سوگوار تھے جو ایک عراقی پولیس اہل کار کے جنازے کے جلوس میں شامل تھے۔
ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں، امریکی صدر براک اوباما نے متنبہ کیا ہے کہ باغیوں کی طاقت مزید بڑھ سکتی ہے جس کے باعث مشرق وسطیٰ کے دیگر ملک عدم استحکام کا شکار ہوسکتے ہیں۔
امریکی رہنما نے کہا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ ’چوکنہ‘ رہے۔ تاہم، دکھاوے کا کوئی کھیل نہیں کھیلا جائے گا؛ اور ہر اس ملک میں امریکی فوج نہیں بھیجی جا سکتی، جہاں جہاں یہ تنظیمیں سر اٹھاتی ہیں۔
دریں اثنا، عراق کے منقسم رہنماؤٕں کو متحد کرنے اور باغیوں کو پسپہ کرنے کے لیے امریکہ نے نئی سفارتی کوششوں کا آغاز کردیا ہے۔
ادھر، مشرق وسطیٰ اور یورپ کا دورہ شروع کرنے کے لیے، امریکی وزیر خارجہ جان کیری مصر پہنچ چکے ہیں، جِس کا مقصد خاص طور پر عراق کے بارے میں اپنے ساجھے داروں سے صلاح و مشاورت کرنا ہے۔