عراق کے مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کی تحریک نے نئی حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک میں نئی حکومت نامزد وزیرِ اعظم محمد شیاع السوڈانی بنا رہے ہیں۔
ہفتے کو یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب ملک کے قانون ساز دو روز قبل عبد الطیف راشد کو عراق کا نیا صدر منتخب کر چکے ہیں۔
صدر منتخب ہونے کے فوری بعد عبد الطیف راشد نے ایک سال سے جاری سیاسی تعطل ختم کرنے کے لیے محمد شیاع السوڈانی کو وزیرِ اعظم نامزد کیا رھا۔ عراق میں اکتوبر 2021 کے انتخابات کے بعد سے سیاسی تعطل برقرار ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں مقتدیٰ الصدر کے قریبی معاون محمد صالح العراقی نے کہا ہے کہ ’’ہم اپنی کسی بھی حامی تنظیم کے نئی حکومت میں شامل ہونے یا حصہ لینے کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔‘‘
باون سالہ سابق وزیر محمد شیاع السوڈانی کو ’ کوآرڈینیشن فریم ورک‘ کی حمایت حاصل ہے جس کی عراق کی پارلیمان کی 339 میں سے 138نشستیں ہیں۔
SEE ALSO: ایرانی فورسز کی عراقی علاقے میں زمینی حملے کی دھمکیجون میں مقتدیٰ الصدر نے اپنے حامی اتحاد کے 73 قانون سازوں کو استعفے دینے کا حکم دیا تھا، یوں پارلیمان ’کو آرڈینیشن فریم ورک‘ کے ہاتھوں میں رہ گیا تھا۔
ہفتے کے روز اپنے بیان میں صالح العراقی نے الزام لگایا کہ نئی حکومت واضح طور پر ملیشیاؤں کے ماتحت ہے اور لوگوں کی امنگوں پر پوری نہیں اترے گی۔
مقتدیٰ الصدرکی طرف سے ایک رہنما نے کہا کہ ان کی تحریک کسی بھی ایسی حکومت میں شامل نہیں ہو گی جس کی قیادت محمد شیاع السوڈانی کر رہے ہوں یا کوئی بھی ایسا شخص کر رہا ہو، جو ان پرانے لوگوں میں سے ہو جو بد عنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: کرد اپوزیشن کے ٹھکانوں پر ایران کے ڈرون حملے میں 9 افراد ہلاکخبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق عراق کی آئندہ حکومت کے لیے ایسے میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے جب کہ تیل کی برآمد سے حاصل ہو نے والے 87 ارب ڈالر سینٹرل بینک میں پڑے ہوئے ہیں۔
یہ رقم جنگ سے تباہ حال ملک کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو میں مدد دے سکتی ہے البتہ یہ رقم اسی وقت مصرف میں لائی جا سکتی ہے جب قانون ساز حکومت کے پیش کردہ بجٹ کی منظوری دیں۔
محمد شیاع السوڈانی نے جمعرات کو ایسی اقتصادی اصلاحات لانے کا عزم ظاہر کیا جو عراق کی صنعت، زراعت اور پرائیویٹ سیکٹر ز کو پھر سے فعال کر دیں گی۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔