|
بہت سی عراقی خواتین اور انسانی حقوق کے گروپس کو خدشہ ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون ساز جن تبدیلیوں پر غور کر رہے ہیں، اس سے عائلی قوانین پر مذہبی حکام کو زیادہ اختیار مل جائے گا جس سے 9 سال کی لڑکی کی شادی کرنے کا راستہ کھل جائے گا۔
اس وقت عراق میں قانونی طور پر شادی کی عمر 18 سال ہے، لیکن پھر بھی کچھ واقعات میں کم عمر کی لڑکیاں بیاہ دی جاتی ہیں۔ ملک میں شیعہ مسلم آبادی کی اکثریت ہے اور زیادہ تر قدامت پسند علما 9 سال کی لڑکی کی شادی کو جائز سمجھتے ہیں۔
عراق میں نجی زندگی سے منسلک مذہبی معاملات کے لیے پرسنل اسٹیٹس قانون نافذ ہے جس کے عہدے داروں کی اکثریت کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے۔ ان دنوں پارلیمنٹ میں قانون ساز جن تبدیلیوں پر غور کر رہے ہیں، اس سے عائلی قوانین پر مذہبی حکام کو زیادہ اختیارات مل جائیں گے اور وہ شادی کے معاملات میں یہ فیصلہ دے سکیں گے کہ آیا لڑکی مذہبی لحاظ سے شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔
جنوبی عراقی شہر بصرہ کی شائمہ سعدون کہتی ہیں کہ ان کی شادی 13 سال کی عمر میں ایک 39 سالہ شخص سے کر دی گئی تھی جس کی واحد وجہ غربت تھی۔ شائمہ کے والدین کو امید تھی کہ امیر شوہر ان کی بیٹی کو خوش رکھے گا۔ جب کہ شوہر کی توقع یہ تھی کہ شائمہ اس کی خدمت کرے گی، خوش رکھے گی اور اس کے بچے پالے گی۔
شائمہ بتاتی ہیں کہ شادی کے وقت میں خود ایک بچی تھی۔ میں نے شوہر کے ساتھ اپنا وقت بڑی مشکل سے کاٹا اور مجھے 30 سال کی عمر میں اس سے طلاق لینی پڑی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بچے کو ایسی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے جو انہوں نے کاٹی ہے۔
لیکن اب جلد ہی ریاست کی طرف سے کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کرنے کی منظوری دی جا سکتی ہے۔ عراقی پارلیمنٹ متنازعہ قانونی تبدیلیوں پر غور کر رہی ہے جس سے عائلی قوانین سے متعلق عہدہ داروں کو لڑکی کی شادی کی عمر کا تعین کرنے کا اختیار مل جائے گا۔
شادی کے قانون میں تبدیلی کے لیے دباؤ بنیادی طور پر طاقت ور شیعہ مسلم سیاسی گروپوں کی جانب سے آیا ہے جنہیں مذہبی رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد عراق میں مغرب مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے اور معاشرے میں رائج ترقی پسند مغربی اقدار سے نجات حاصل کرنے کی سوچ زور پکڑ رہی ہے۔
عراق کے ایک رکن پارلیمنٹ رائد المالکی نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے کہا کہ مغرب میں بچوں کو ان کے والدین سے دور کر دیا جاتا ہے۔ ان کا ایک الگ کلچر بنا دیا جاتا ہے۔ ان میں ہم جنس پرست پیدا کر دیے جاتے ہیں۔ ہم ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ ہم اسے ترقی نہیں سمجھ سکتے۔
مجوزہ ترامیم سے عراقیوں کو شادی سمیت عائلی قوانین سے منسلک مسائل پر مذہبی عدالتوں میں جانے کا موقع ملے گا جب کہ یہ معاملات اس وقت عام عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
عائلی اداروں میں حکام ملک میں رائج قوانین سے ہٹ سے شریعت کی اپنی تشریح کے مطابق فیصلے کریں گے۔ مجوزہ قانون کے نقادوں کا کہنا ہے کہ چونکہ عائلی اداروں میں زیادہ تر حکام شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور جعفریہ مکتب فکر کے مطابق لڑکی کی شادی 9 سال کی عمر میں ہو سکتی ہے۔ اس لیے عراقی خواتین کو خدشہ ہے کہ نوعمری میں لڑکیوں کو بیاہے کا دروازہ کھل جائے گا جس سے کئی طرح کی پیچیدگیاں اور مسائل جنم لیں گے اور معاشرے میں خواتین کے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی راہیں مسدود ہو جائیں گی۔
اگست میں ہونے والے ایک مظاہرے میں خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن ھبة الدبونی بھی شریک تھیں ۔ انہوں نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون ساز ملک کو 1500 سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم آخری سانس تک اس کی مخالفت کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے قوانین منظور کرے جس سے معاشرے کے معیار میں بہتری آئے۔
قدامت پسند قانون دان ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قانون میں تبدیلی سے لوگوں کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ سول لاء یا مذہبی قانون میں سے جسے چاہے استعمال کریں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ترمیم کا مقصد سیکولر اور مغربی اثرات کے خلاف خاندانوں کا دفاع کرنا ہے۔
SEE ALSO: جنوبی ایشیا میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی روک تھام کے لیے مزید 55 برس درکارعراق میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک ریسرچر سارہ صنوبر اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان تبدیلیوں سے شوہر کی پسند کو مزید تقویت مل جائے گی۔ اگرچہ قانون میں عورتوں کو بھی انتخاب کا حق ملے گا لیکن اس میں بھی پہلا حق مرد کا ہی ہو گا۔
عراقی میڈیا پر ان دنوں نیوز شوز میں مجوزہ ترامیم پر بحث مباحثے ہو رہے ہیں۔ ایک سنی عالم نے کم عمر کی شادی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے لڑکیوں کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے اور یہ کہ ملک میں رائج شادی کے قوانین سے اسلام کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ایک شیعہ عالم راشد الحسینی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ شریعت میں 9 سال کی لڑکی سے شادی کی اجازت ہے لیکن عملی طور پر اس کا امکان زیادہ سے زیادہ ایک فی صد ہے۔
اس سے قبل پرسنل اسٹیٹس لاء 1959 میں منظور کیا گیا تھا جس میں خواتین اور بچوں کے تحفظ کی مضبوط بنیاد فراہم کی گئی تھی۔ اس قانون میں شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔ جب کہ والدین کی رضامندی اور بلوغت کو پہنچنے کے طبی ثبوت کے ساتھ کم عمر میں بھی شادی کی اجازت مل سکتی ہے۔
SEE ALSO: بھارت میں کم عمری کی شادیوں پر کریک ڈاؤن، ڈھائی ہزار سے زائد گرفتاریاںعراق میں مذہبی عدالتوں کی منظوری کے بغیر شادی پر پابندی ہے لیکن کئی واقعات میں اجازت لیے بغیر ہی شادی کرنے کے بعد میں رسمی طور پر منظوری لے لی جاتی ہے۔ اس طرح کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ مذہبی جج انفرادی طور پر کم عمر لڑکی کی شادی کی اجازت دے دیتے ہیں، تاہم اس کی وجہ کرپشن، اثر و رسوخ اور دوسرے معاملات ہوتے ہیں۔
لیکن اب خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خدشہ ہے کہ اکا دکا ہونے والے ان واقعات کو قانون کا تحفظ مل جائے گا اور اب کم عمری کی شادیاں بلا خوف و خطر کھلے عام ہونے لگیں گی۔
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے ایک اسکالر حارث حسن کہتے ہیں کہ نئی ترامیم سے شادی، وراثت اور طلاق کے معاملات مذہبی حکام کے دائرہ اختیار میں آ جائیں گے جنہیں عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سے ملک میں دو متوازی نظام قائم ہو جائیں گے، جس کا نتیجہ انتشار کی شکل میں نکلے گا۔
شائمہ سعدون اب عراق کے نیم خودمختار کرد علاقے میں رہتی ہیں۔ وہ عراق میں خواتین اور لڑکیوں کے مستقبل سے خوف زدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سول اسٹیٹس لاء میں نئی تبدیلیاں نہ صرف بہت سی چھوٹی بچیوں بلکہ آنے والی کئی نسلوں کا مستقبل بھی تباہ کر دیں گی۔
(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)