قومی اسمبلی کا الوداعی اجلاس: نگراں سیٹ اپ سے متعلق ترامیم کی بازگشت

فائل فوٹو

پاکستان میں قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے قریب آنے پر پارلیمنٹ میں نگراں وزیرِ اعظم کے اختیارات میں اضافے اور دیگر انتخابی ترامیم کی خبریں زیرِ گردش ہیں۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے پر الوداعی اجلاس پیر کو شروع ہو گیا ہے جو اگست کے وسط میں ایوان زیریں کی تحلیل تک جاری رہے گا۔

قومی اسمبلی کی آئینی مدت 12 اگست کو مکمل ہونے جا رہی ہے جس کے ساتھ ہی موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی اور اس کی جگہ نگراں حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

ایسے میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے نگراں حکومت کو اضافی اختیارات دینے کی بات کی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی جائے گی تاکہ عبوری حکمران اہم فیصلے کر سکیں۔

'نگراں سیٹ اپ کے پاس بڑے فیصلے کرنے کا اختیار ہونا چاہیے'

سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ نگراں حکومت کو تین، چار ماہ کے لیے ملک کو چلانا ہے اور ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے انہیں اہم معاشی فیصلوں کا اختیار ہونا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ نگراں دور میں ملک کا معاشی اور ترقیاتی نظام مفلوج ہو جاتا ہے کیوں کہ آئین انہیں صرف روزمرہ کے امور اور انتخابات میں الیکشن کمیشن کی معاونت تک محدود رکھتا ہے۔

ان کی رائے میں اس پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہو جائے گا کیوں کہ اس کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت ہو گی۔

کنور دلشاد کے بقول معاشی حالات اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدے کو دیکھتے ہوئے نگراں وزیرِ اعظم کے اختیارات میں اضافہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز کیا ہیں؟

اطلاعات ہیں کہ حکومت الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 میں ترمیم کر کے نگراں حکومت کو معاشی فیصلے کرنے کا اختیار دینا چاہتی ہے۔

آئندہ انتخابات کے حوالے سے اصلاحات کے سلسلے میں پارلیمانی اصلاحات کمیٹی نے اپنی تجاویز کو مکمل کر لیا ہے۔ امکان ہے کہ انہیں رواں ہفتے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا لیا جائے گا۔

انتخابی اصلاحات سے متعلق چیف الیکشن کمشنر نے بعض تجاویز وزارتِ پارلیمانی امور کے ذریعے وفاق کو بھجوائی تھیں جن میں سے زیادہ تر کو انتخابی اصلاحات بل کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ حکومت کی جانب سے کی گئی ترامیم پر بھی نظرِثانی کی ہے جنہیں الیکشن کمیشن نے ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے انتخابی اصلاحات کمیٹی میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی اپنی تجاویز کمیٹی کے سامنے رکھی ہیں۔

'فی الحال یہ تجویز زیرِ غور نہیں لائی گئی'

انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی کے رکن اور پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کہتے ہیں کہ ایسی کوئی تجویز فی الحال انتخابی اصلاحات کمیٹی میں زیر غور نہیں لائی گئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ یہ تجویز قابل عمل نہیں ہے بلکہ بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

تاج حیدر نے کہا کہ اس ملک کے فیصلے یہاں کے منتخب نمائندوں نے کرنے ہیں نہ کہ کسی اور ملک یا غیر ملکی اداروں نے۔ لہذا اہم معاشی فیصلوں کا اختیار صرف پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کے علاوہ کسی کے سپرد کرنا آئین کے منافی ہے۔

'ڈان نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران اسحاق ڈار سے جب پوچھا گیا کہ کیا انتخابی قانون کے سیکشن 230 میں ترمیم کی جائے گی؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ملک کو تین ماہ کے لیے ایسی حکومت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا جو بڑے فیصلے نہ کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارا ماضی کا تجربہ بہت اچھا نہیں رہا۔" ان کے مطابق یہ مناسب نہیں ہو گا کہ قوم کے تین ماہ روزمرہ کے فیصلوں پر صرف کیے جائیں۔

سیکشن 230 کے مطابق نگراں حکومت کا مینڈیٹ آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف نے مجوزہ ترامیم کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنا آئین کی نفی کے مترادف ہو گا۔

'ممکن ہے کہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے ضروری ترامیم پر اتفاق ہو جائے'

پیپلز پارٹی کی رہنما اور وفاقی وزیر شیری رحمان کہتی ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے آخری ایام میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور ملک کو ایک غیر یقینی صورتِ حال سے نکالا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس لیے وہ نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کر سکتیں۔ ممکن ہے کہ معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے ضروری ترامیم پر اتفاق رائے ہو جائے۔

موجودہ قانون نگراں حکومت کو فوری معاملات کے علاوہ بڑے پالیسی فیصلے لینے سے روکتا ہے اور یہ کسی ملک یا بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ بڑے بین الاقوامی مذاکرات میں بھی شامل نہیں ہو سکتی۔ کسی بین الاقوامی بائنڈنگ انسٹرومنٹ پر دستخط یا اس کی توثیق بھی نہیں کر سکتی۔