|
لاہور _ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کا ایک دوسرے پر الزامات کا معاملہ ان دنوں عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث ہے۔ ایک جانب شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے جاوید لطیف شکوے شکایات کر رہے ہیں تو وہیں رانا ثناء اللہ بھی موجودہ صورتِ حال پر مایوس دکھائی دیتے ہیں۔
بعض حلقوں کے مطابق آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اندر بیانیے کے معاملے پر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے بعض سینئر رہنما حکومت میں آنے اور حتیٰ کے دوبارہ الیکشن لڑنے سے بھی گریزاں ہیں۔
بعض لیگی رہنماؤں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ 'ووٹ کو عزت دو' کا بیانیہ چھوڑنے کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو الیکشن میں ہوا۔ بعض رہنما مخلوط حکومت بنانے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ مزاحمتی بیانیہ نہ ہونے کی وجہ سے انتخابات میں ان کی جماعت کو نقصان ہوا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان نے جتنی مزاحمت کی اس کی اُنہیں توقع نہیں تھی۔
دوسری جانب جاوید لطیف اور رانا ثناء اللہ ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کر رہے ہیں۔ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں دونوں ہی لیگی رہنماؤں کو شکست ہوئی تھی۔
جاوید لطیف کو شیخوپورہ کے حلقہ این اے 115 سے پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ خرم شہزاد ورک نے شکست دی تھی۔ انتخابی ناکامی کے بعد جاوید لطیف نے الزام عائد کیا تھا کہ شیخوپورہ کی پانچ نشستوں کو مینج کرنے کے لیے 90 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔
SEE ALSO: فوج کی عزت کم ہونے کی وجہ غلط فیصلے ہیں: جنرل (ر) فیض علی چشتیجاوید لطیف نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اُنہیں کہا گیا ہے کہ اگر اپنا حلقہ کھلوانا ہے تو پھر لاہور سے میاں نواز شریف کا حلقہ بھی کھولنا پڑے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما یہ کہتے رہے ہیں کہ لاہور کے حلقہ این اے 130 سے میاں نواز شریف کی انتخابی کامیابی بھی مشکوک ہے۔ اس حوالے سے مخالف اُمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے نواز شریف کی کامیابی لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کر رکھی ہے۔
رانا ثناء اللہ نے جاوید لطیف کے بیانات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں صرف یہ مسئلہ ہے کہ شیخوپورہ سے ہی رانا تنویر کیوں جیت گئے۔ اگر رانا تنویر بھی الیکشن ہار جاتے تو جاوید لطیف بھی خاموش ہو کر بیٹھ جاتے۔
آخر مسلم لیگ (ن) میں چل کیا رہا ہے؟ کیا مسلم لیگ (ن) ابھی تک غیر متوقع انتخابی نتائج کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکی؟ کیا مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹنا مسلم لیگ (ن) کے خلاف گیا؟ اس معاملے پر وائس آف امریکہ نے سیاسی مبصرین سے بات کی ہے۔
'مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں کو ہار ہضم نہیں ہو رہی'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ انتخابات میں ناکام ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں میں سے بعض نے کھلے دل سے اپنی شکست قبول کی لیکن کچھ کو اب بھی اپنی ہار ہضم نہیں ہو رہی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غںی نے کہا کہ رانا ثناء اللہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر ہیں جب کہ خواجہ سعد رفیق بھی پارٹی کی قد آور شخصیت ہیں۔ دونوں نے کھلے دل سے نہ صرف انتخابی شکست قبول کی بلکہ ضمنی الیکشن لڑنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت کا حصہ بننے سے بھی گریزاں ہیں۔
SEE ALSO: شہباز شریف کی کابینہ: ’سیاسی جماعتوں کے ساتھ مقتدرہ کی شراکت بھی دکھائی دیتی ہے‘سلمان غنی کہتے ہیں کہ رانا ثناء اللہ اور سعد رفیق کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سنجیدہ رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ لہذٰا اگر وہ کچھ تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں تو پارٹی کو اُن کی بات سننی چاہیے۔
سلمان غنی نے دعویٰ کیا کہ سعد رفیق نے الیکشن سے قبل ہی اُنہیں بتایا دیا تھا کہ وہ یہ الیکشن ہار جائیں گے اور پھر وہی ہوا۔
اُن کے بقول اگر جاوید لطیف نے 90 کروڑ روپے میں شیخوپورہ کی نشستیں مینج کرنے کی بات کی ہے تو پھر اُنہیں اس کے ثبوت بھی سامنے لانے چاہئیں۔
'مسلم لیگ (ن) میں سب اچھا نہیں ہے'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ ماضی میں کئی مشکل ادوار آئے۔ لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) تقسیم کا شکار نہیں ہوئی۔ لیکن اب جب میاں نواز شریف ملک میں موجود ہیں ایسے میں پارٹی کے اندر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ بعض رہنما وہ ہیں جو مسلم لیگ (ن) چھوڑ چکے ہیں، ان میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور چوہدری نثار علی خان شامل ہیں۔ دوسرا وہ گروپ ہے جو پارٹی میں بہت چہیتا سمجھا جاتا تھا۔ ان میں جاوید لطیف اور رانا ثناء اللہ جیسے لوگ شامل ہیں جو اپنے بیانات سے حیران کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول یہ رہنما ایسے بیانات کیوں دے رہے ہیں، اس حوالے سے چیزیں سامنے نہیں آئیں۔ لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں سب اچھا نہیں ہے۔ پارٹی کے اندر اختلافی آوازوں کا میڈیا پر آنا پارٹی کے لیے اچھا نہیں ہے۔
سلیم بخاری کے بقول سیاسی حلقوں میں یہ گفتگو بھی ہو رہی ہے کہ نواز شریف خود وزیرِ اعظم بن جائیں گے جب کہ پنجاب میں بھی کوئی اور وزیرِ اعلٰی آئے گا۔
'تاثر ہے اسٹیبلشمنٹ ڈبل گیم کھیل رہی ہے'
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ تاثر بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔ چاہے وہ عید سے قبل نو مئی کے 20 ملزمان کی رہائی ہو یا روپوش لوگوں کی واپسی یا مقدمات میں ضمانت کا معاملہ۔
اُن کے بقول پارٹی کے اندر ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 'ڈبل گیم' کھیل رہی ہے، لہذٰا پارٹی کے بعض رہنما چاہتے ہیں کہ نواز شریف دوبارہ مزاحمتی بیانیہ اپنائیں۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ نواز شریف جب گزشتہ برس لندن سے پاکستان آئے تھے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ ملک کو نقصان پہنچانے والوں سے حساب لیا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد سے وہ خاموش ہیں۔ لہذٰا نواز شریف پر پارٹی کے اندر سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسا بیانیہ اپنائیں جس سے ووٹر کا اعتماد دوبارہ بحال ہو۔
'یہ حکومت نہیں بلکہ بندوبست ہے'
سلمان غنی کے بقول مسلم لیگ (ن) اس وقت مخلوط حکومت میں ہے اور اس کے پاس بڑے فیصلوں کا اختیار بھی نہیں۔ کیوں کہ بڑے فیصلوں کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) جیسا پلیٹ فارم موجود ہے جس میں آرمی چیف بھی شامل ہیں۔ لہذٰا یہ حکومت نہیں بلکہ ایک بندوبست ہے۔
اُن کے بقول ماضی میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی تو نواز شریف ہی وزیرِ اعظم تھے اور شہباز شریف پنجاب کا محاذ سنبھالتے تھے۔ لہذٰا پارٹی معاملات بھی نواز شریف کی گرفت میں ہوتے تھے اور پارٹی کے اندر بھی کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوتی تھی۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جب سیاسی کارکن کی بات نہیں سنی جائے گی تو وہ اس طرح اپنے تحفظات کا اظہار میڈیا پر کرتا رہے گا۔
نواز شریف خاموش کیوں ہیں؟
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی آپسی بیان بازی کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا جب کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف بھی خاموش ہیں اور ان دنوں چین کے دورے پر ہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے بھائی اس وقت ملک کے وزیرِ اعظم ہیں جب کہ اُن کی صاحبزادی ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیرِ اعلٰی ہے، لہذٰا وہ اس صورتِ حال میں خاموش ہیں۔
اُن کے بقول یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر پارٹی اختلافات بڑھے تو نواز شریف خود پارٹی کی صدارت سنبھال لیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ انتخابات ہارنے والے لیگی رہنما میڈیا میں بھڑاس نکال کر اپنے وجود کا احساس دلا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پارٹی کو چاہیے کہ ان رہنماؤں کو ڈسپلن میں لائیں ورنہ اس سے نقصان ہو گا۔
مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ مزاحمت کے بیانیے کے ساتھ اقتدار حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہذٰا مزاحمت کا بیانیہ چھوڑنے کا فیصلہ مسلم لیگ (ن) کا اپنا تھا اور اسی وجہ سے ہی پارٹی اقتدار میں ہے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بعض سینئر رہنما 'ووٹ کو عزت دو' کا بیانیہ چھوڑنے کو پارٹی کی پذیرائی کم ہونے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنا کر اس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔
دوسری جانب میڈیا میں یہ رپورٹس بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پارٹی نے رانا ثناء اللہ اور خواجہ سعد رفیق کو حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ تاہم دونوں رہنماؤں نے ایک بار پھر اس سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں مستقبل پر نظر رکھ کر وہ بیانیہ بنانا ہے جسے عوام پسند کرے۔
وائس آف امریکہ نے پارٹی کے اندر اختلافات اور رہنماؤں کی الزام تراشیوں کے معاملے پر وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ سے رابطہ کیا۔ تاہم اُنہوں نے پارٹی کے اندر کسی بھی قسم کی اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے مزید بات کرنے سے معذرت کر لی۔