امریکہ میں حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنزی گراہم نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کے تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں۔
ری پبلکن سینیٹر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 11 ستمبر کو امریکی فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں تشدد کے واقعات میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کسی سمجھوتے پر اتفاق رائے کے لیے دوحہ میں جاری بات چیت سست روی کا شکار ہے۔
پاکستان اس بات پر زور دے رہا ہے کہ امریکہ فوجی انخلا سے قبل افغانستان میں تمام افغان فریقوں کے مابین سیاسی تصفیہ یقینی بنائے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے بدھ کو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کے دورے کے دوران افغانستان سے امریکی انخلا اور اس سے پیدا شدہ صورتِ حال پر بریفنگ بھی دی گئی۔
سینیٹر لنزی گراہم نے منگل کو اپنی ٹوئٹس میں امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے وزیرِ اعظم عمران خان سے رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ کو 'حیرت انگیز' قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ افغانستان سے انخلا کرتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے جو کہ عراق سے بھی بڑی غلطی ثابت ہو گی۔
انہوں نے استفسار کیا کہ 'ہم کس طرح پاکستان سے تعاون کیے بغیر افغانستان سے اپنا انخلا مؤثر ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ہفتے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا تھا کہ صدر بائیڈن کے ساتھ ان کا تاحال کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ "ان (صدر بائیڈن) کے پاس جب وقت ہو تو وہ مجھ سے بات کر سکتے ہیں، لیکن اس وقت واضح طور پر ان کی ترجیحات دوسری ہیں۔"
خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد سے تاحال پاکستان کے وزیر اعظم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' میں لکھے گئے اپنے حالیہ مضمون میں کہا تھا کہ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے امریکہ سے شراکت داری کے لیے تیار ہے لیکن مزید کسی تنازع سے دور رہے گا۔
افغانستان سے انخلا کے موقع پر امریکی صدر جو بائیڈن کا وزیرِ اعظم عمران خان سے براہ راست رابطہ نہ کرنا عالمی و مقامی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کی شب نجی ٹی وی 'جیو نیوز' کے ایک مذاکرے میں اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور امریکی قیادت کے درمیان کوئی ناراضگی نہیں ہے اور صدر بائیڈن خارجہ امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں لہذا وہ پاکستان کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ واشنگٹن کی اپنی ترجیحات ہو سکتی ہیں اور اسلام آباد بھی کسی عجلت میں نہیں ہے۔ البتہ امریکی قیادت کے سامنے اپنا مؤقف واضح اور غیر مبہم انداز میں پہنچا رہے ہیں۔
'چین کے خلاف محاذ کے باعث واشنگٹن اسلام آباد کو نظر انداز کر رہا ہے'
پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ امریکی صدر کی براہ راست بات چیت نہ ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیٹ آف پاکستان کی دفاعی اُمور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ چین اور روس کے خلاف سرد جنگ کی تیاری میں اس قدر مصروف ہے کہ انہیں افغانستان کی تیزی سے بگڑتی صورتِ حال کا ادراک نہیں ہو رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ چوں کہ پاکستان امریکہ کی نئی سرد جنگ میں شامل نہیں ہو سکتا، اس لیے واشنگٹن کی توجہ اسلام آباد کی بجائے بھارت سمیت ان ممالک پر ہے جو بیجنگ اور ماسکو کے خلاف اس کے حلیف بن سکیں۔
خارجہ اُمور پر نظر رکھنے والے مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ یہ بدقسمتی ہے کہ واشنگٹن کی توجہ افغانستان کی طرف نہیں جہاں حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور نوابزادہ ملک عماد خان کہتے ہیں کہ اسلام آباد کا خطے میں اہم کردار ہے اور افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کے کلیدی کردار کو امریکہ سراہتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم عمران خان کا براہ راست رابطہ نہ ہونا ایک الگ بات ہے البتہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی بات چیت مختلف سطح پر جاری رہتی ہے اور افغانستان سے انخلا جیسے اہم عمل میں پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
امریکہ بین الافغان سمجھوتے کے بغیر انخلا کیوں کر رہا ہے؟
مبصرین افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے متاثرہ اس ملک کے مستقبل کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین ملک میں دوبارہ خانہ جنگی کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کو قریب سے دیکھنے والے سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ پاکستان کا خدشہ صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ امریکہ ماضی کی طرح افغانستان کو عدم استحکام کی صورت میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ 29 فروری کے امن معاہدے کے نتیجے میں انخلا کر رہا ہے لیکن بین الافغان مذاکرات کے ذریعے امن و استحکام کی صورت نظر نہیں آ رہی۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ واشنگٹن کی ناکامی اور غلطیوں کا ملبہ افغانستان کے اندر اور ارد گرد کے ممالک پر پڑے گا جس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔
انہوں نے طالبان کی جانب سے تاجکستان جانے والی مرکزی سرحدی گزرگاہ پر قبضے کی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے چھ ہمسایہ ممالک میں سے ایک کی سرحد کا انتظام اب کابل حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
سابق وزیرِ مملکت ملک عماد خان کہتے ہیں افغانستان سے امریکی انخلا آسان عمل نہیں اور اس کے خطے پر بہت مضمرات ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا دیرپا قیامِ امن کے لیے یہ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ کس قسم کا نظامِ حکومت افغانستان میں چھوڑ کر جاتا ہے کیوں کہ اگر کوئی متفقہ حکومت نہیں آتی تو حالات خانہ جنگی کی طرف جائیں گے۔
ملک عماد نے کہا کہ حکومت کی تشویش جائز ہے کہ امریکی انخلا کے بعد پیدا شدہ خلا کو کون پر کرے گا کیونکہ افغانستان میں عدم استحکام کے پاکستان پر براہ راست اثرات پاکستان ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد امن قائم ہو جائے گا انہیں سمجھنا چاہیے کہ زمینی حقائق اتنے سادہ نہیں ہیں اور امریکہ کسی منظم فوج یا نظام حکومت کے بغیر افغانستان کو چھوڑ کر جا رہا ہے۔