امریکی فوج آئی ایس آئی کو دہشت گرد تنظیم سمجھتی تھی، رپورٹ

امریکی فوج آئی ایس آئی کو دہشت گرد تنظیم سمجھتی تھی، رپورٹ

وکی لیکس کی جانب سے جاری کردہ نئی امریکی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی فوج نے 2007ء میں پاکستان کی خفیہ فوجی اجنسی 'آئی ایس آئی' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔

پیر کےروز سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق امریکی فوج کو شبہ تھا کہ اس کی تحویل میں موجود پاکستانی خفیہ ایجنسی سے رابطوں میں رہنے والے افراد یا تو ماضی میں القاعدہ اور طالبان کو مدد فراہم کرتے رہے ہیں یا وہ امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف کاروائیوں میں ملوث رہے ہونگے۔

سینکڑوں کی تعداد میں جاری کی گئی ان نئی دستاویزات میں گوانتانامو میں واقع امریکی فوجی قید خانے میں رکھے گئے 700 کے لگ بھگ قیدیوں میں سے اکثریت کے بارے میں تفصیلی معلومات شامل ہیں۔

امریکی اخبار 'نیو یار ک ٹائمز' نے دستاویزات کے حوالے سے کہا ہے کہ گوانتانامو سے منتقل کیے گئے ایک تہائی قیدیوں کو انٹیلی جنس رپورٹوں میں "انتہائی خطرناک" قرار دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں انہیں یا تو رہا کردیا گیا یا امریکی حکام نے انہیں ان کے آبائی ممالک کی حکومتوں کےحوالے کردیا تھا۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ گوانتانامو کے قید خانے میں اب بھی 172 قیدی موجود ہیں جن کے بارے میں انٹیلی جنس حکا م کا کہنا ہے کہ ان کی مناسب بحالی اور نگرانی کے انتظام کے بغیر رہائی "امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلیے انتہائی خطرناک" ثابت ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ گوانتانامو بے کا امریکی فوجی قید خانہ 2002ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے آغاز سے لے کر اب تک وہاں سے کل 600 کے لگ بھگ قیدی رہا یا دیگر ملکوں کے حوالے کیے جاچکے ہیں۔

برطانوی اخبار 'دی ٹیلیگراف' نے مذکورہ رپورٹوں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ گوانتانامو سے منتقل کیے گئے ان 600 قیدیوں میں سے 150 کے لگ بھگ قیدی ایسے تھے جنہیں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کیا جاچکا ہے۔ اخبار کے مطابق انٹیلی جنس رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قید خانے میں رکھے گئے زیادہ تر افراد نچلے درجے کے شدت پسند تھے جو امریکہ کے خلاف مسلح جدوجہد میں ملوث پائے گئے تھے۔

'دی ٹیلیگراف' کو مذکورہ دستاویزات وکی لیکس کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں جو امریکی فوج نے 2002ء سے 2009ء کے دوران تیار کی تھیں۔ 'نیو یارک ٹائمز' نے کہا ہے کہ اسے یہ دستاویزات کسی اور ذریعہ سے حاصل ہوئی ہیں۔

دریں اثناء امریکہ نے مذکورہ دستاویزات کے اجراء کی سخت مذمت کی ہے۔

امریکی وزارتِ دفاع و خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے جائزے پر مشتمل یہ رپورٹس پرانی معلومات پر مشتمل ہیں اور " قیدیوں کے بارے میں موجودہ تجزیات " کی نمائندگی نہیں کرتیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 2009ء میں ایک ٹاسک فورس کی جانب سے کیے گئے قیدیوں کے تجزیے پر مشتمل رپورٹس جاری نہیں کی گئیں اور وہ بدستور 'سیکرٹ' ہیں۔

مذکورہ دستاویزات میں امریکہ کی تحویل میں قید کئی ہائی پروفائل دہشت گردوں کی تفصیلات بھی موجود ہیں جن میں 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور سینئرالقاعدہ رہنما عبدالرحیم النشیری شامل ہیں۔

'ڈی ٹیلیگراف' کے مطابق دستاویزات میں القاعدہ کے ایک رہنما کا یہ بیان بھی نقل کیا گیا ہے کہ جس میں تنظیم کے پاس یورپ میں ایک جوہری بم کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا تھا۔ القاعدہ رہنما نے تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری یا ہلاکت کی صورت میں مذکورہ جوہری بم کے استعمال کی دھمکی دی تھی۔

دستاویزات کے مطابق عبدالرحیم النشیری نے بھی دورانِ تفتیش حکام کو بتایا تھا کہ القاعدہ 'جوہری طوفان' برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔