وکی لیکس کے شائع کردہ تازہ ترین خفیہ کاغذات ان فائلوں پر مشتمل ہیں جن میں قیدیوں کے ذاتی کوائف درج ہیں۔ ان فائلوں پر “Secret-Noforn” کا لیبل لگا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فائلیں غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نہیں دکھائی جا سکتیں۔ بنیادی طور سے یہ انفرادی قیدیوں کے جائزے ہیں کہ مستقبل میں کس سے دہشت گردی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن کچھ اور کاغذات بھی ہیں جن میں ایک دھماکہ خیز دستاویز ان گروپوں کے بارے میں ہے جو دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے رہے ہیں۔
ایک طویل دستاویز کا عنوان ہے ’’میٹرکس آف تھریٹ انڈیکیٹرز فار اینیمی کومبیٹینٹس‘‘۔ اس میں پوچھ گچھ کرنے والوں اور دوسرے عہدے داروں کی رہنمائی کی گئی ہے کہ ممکنہ دہشت گرد میں کس قسم کی علامتیں تلاش کرنی چاہئیں۔ ان کاغذات میں ایسی تنظیموں کی فہرست ہے جنہیں القاعدہ یا طالبان کی ایسو سی ایٹ فورسز کا نام دیا گیا ہے ۔ اس فہرست میں پاکستان کی آئی ایس آئی اور یمن انٹیلی جنس کے نام شامل ہیں۔ ان دونوں تنظیموں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیئے امریکہ سے کروڑوں ڈالر وصول کیے ہیں۔
آئی ایس آئی پر بعض حلقے ایک طویل عرصے سے تنقید کرتے رہے ہیں کہ مبینہ طور پر اس کے افغان طالبان سے روابط قائم ہیں لیکن پاکستان نے بار بار اس الزام سے انکار کیا ہے۔ یمن کے کچھ حصے، جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ نامی تنظیم کے گڑھ ہیں جو اصل القاعدہ کی شاخ ہے ۔
فائلوں میں گوانتانامو میں مشتبہ دہشت گردوں سے پوچھ گچھ کے ذریعے حاصل کی ہوئی معلومات کی تفصیل درج ہے۔ ان میں القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے ساتھی بھی شامل ہیں۔
سی آئی اے کے سابق افسر، مائیکل شیوؤر جو کبھی اس یونٹ کے سربراہ تھے جو اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے پر مامور تھا، کہتے ہیں کہ کاغذات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوچھ گچھ کرنے والے کوئی ایسی معلومات حاصل نہیں کر سکے جن کی بنیاد پر دہشت گردوں کے اہداف پر حملے کیے جا سکتے۔’’جب آپ القاعدہ کے کسی رکن سے بات کرتے ہیں، تو اس سے آپ کو ایسی معلومات ملتی ہیں جن سے آپ کو اس تنظیم کو سمجھنے اور اس کے کام کے طریقے دریافت کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی ایسی انٹیلی جنس مل سکے جس کی بنیاد پر آپ کوئی کارروائی کر سکیں۔ القاعدہ کے بیشتر کارندے اپنی تنظیم کا ، اپنے کارناموں کا اور اسلامی تاریخ میں اپنے مقام کا بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں۔‘‘
سنٹرفار کونسٹیٹیوشن رائٹس کے شان کیڈیڈال کہتے ہیں کہ بیشتر معلومات کا القاعدہ یا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔’’کئی برسوں کے دوران جو پوچھ گچھ کی گئی اس کے بیشتر حصے کا نائن الیون یا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کو برسوں تک الجزیرہ کے آپریشنز یا ازبک انٹیلی جنس یا بحرین کے شاہی خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے قید میں رکھا گیا۔ ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ طالبان کس طرح لوگوں کی جبری بھرتی کرتے ہیں اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے انہیں زبردستی بھرتی کر لیا تھا۔‘‘
لیکن شیوؤر کہتے ہیں کہ پوچھ گچھ کرنے والوں کو بہر حال مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ انہیں بن لادن اور ان کے ساتھیوں کی شخصیتوں کے بارے میں نئی باتوں کا پتہ چلا۔
سیٹون ہال یونیورسٹی کے مارک ڈین بیاکس نے گوانتانامو کے قیدیوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر تحقیق کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جنوری 2002 میں گوانتانومو کے کھلنے کے بعد سے اب تک جو 800 قیدی وہاں رکھے گئے ہیں، وہ یا تو بے قصور ہیں یا نیچے درجے کے سپاہی ہیں۔’’
اب ہمیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ان لوگوں کو قید میں رکھنے کی بنیاد کونسی خفیہ معلومات ہیں۔ لیکن جن کیسوں کا ہم نے راتوں رات مطالعہ کیا ہے، اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ قیدیوں کا جو نقشہ ابھرتا ہے وہ افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے غیر اہم، معمولی درجے کے لوگوں کا ہے۔‘‘
ایک کاشتکار، عبدالباقی کو 2003 میں قندھار کے قریب سے پکڑا گیا تھا ۔ دستاویزات کے مطابق، اسے طالبان کا رکن سمجھا گیا تھا اور 2004 میں امریکہ کے کومبیٹنٹ اسٹیٹس رویو میں اسے دشمن کا جنگجو قرار دیا گیا تھا۔ لیکن ایک اور دستاویزکے مطابق، مئی 2005 کے جائزے میں اسے معمولی درجے کا خطرناک شخص قرار دیا گیا۔ اس جائزے میں کہا گیا کہ اسے کچھ پڑھنا نہیں آتا ، وہ اپنے نام کے سوا کچھ اور نہیں لکھ سکتا، اسے جہاد کا مطلب نہیں معلوم اور اس کا خیال ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جو سپاہی اور افغان حکومت کرتی ہے ۔ اسے اس لیئے پکڑا گیا تھا کیوں کہ وہ طالبان جیسی سبز رنگ کی جیکٹ پہنے ہوا تھا جنھوں نے امریکی فورسز پر حملہ کیا تھا۔ شائع شدہ رپورٹس کے مطابق، تین سال کی قید کے بعد اسے فروری2006 میں ہوائی جہاز سے واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔