اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیاسی معاملات عدالت میں لانے پر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی سرزنش کی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان، سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں لانے کے بجائے عدالتوں میں لا کر پارلیمنٹ کی بالادستی پر خود سوالیہ نشان کھڑے کر دیتے ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے وفاقی کابینہ میں بڑٰی تعداد میں وزرا اور مشیروں کو شامل کرنے کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے شیخ رشید کی درخواست نمٹاتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ "یہ ستم ظریفی ہے کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کرنے کے بجائے سیاسی قائدین آئینی عدالتوں کے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کوترجیح دیتے ہیں۔اس رجحان نے پارلیمان کے وقار، تقدس اور اثر کو کمزور کر دیا ہے۔"
منگل کو سابق وزیر ِداخلہ شیخ رشید احمد یہ آئینی درخواست لے کر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے جہاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نہ صرف اس درخواست کو مسترد کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ سینئر پارلیمنٹیرین رہے ہیں، آئندہ ایسی درخواست لائے تو مثالی جرمانہ کریں گے۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لانے کی روایت نئی نہیں ہے، بلکہ اس سے قبل بھی کئی ایسے معاملات عدالتوں میں لائے گئے، جنہیں پارلیمان میں زیر بحث لایا جا سکتا تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ حالیہ مثال پاناما کیس کی ہے جسے پارلیمان میں لانے کے بجائے عدالتوں میں لایا گیا اور اس پر عدالتوں نے سزائیں بھی سنائیں۔
'حیرت ہے رجسٹرار نے یہ درخواست کیوں لی'
پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور پر نظر رکھنے والے ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ شیخ رشید جو معاملہ عدالت میں لے کر گئے، اس پر واقعی انہیں جرمانہ ہونا چاہیے تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "مجھے حیرت ہے کہ رجسٹرار نے یہ درخواست کیسے لی۔ اس وقت 72 رکنی کابینہ نہیں ہے۔ قانون کے مطابق کابینہ وزیر اور وزیرمملکت پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے مطابق 49 وزرا اور وزرائے مملکت کی تعداد ہوسکتی ہے۔لیکن ابھی یہ تعداد 41 ہے۔ قانون کا اس پر کوئی دخل نہیں، عدالت کے دائرہ اختیار میں یہ معاملہ نہیں آتا۔"
اُن کے بقول سیاسی طور پر اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بڑی کابینہ ہے تو اس کے لیے سیاسی یا سماجی فورم استعمال کرنے چاہیے۔ آپ کوئی جلسہ کرلیں۔ مظاہرہ کرلیں۔ پارلیمنٹ کے ممبر ہیں تو پارلیمان میں بات کرلیں لیکن عدالت کو اس معاملے میں لانا مناسب نہیں ہے۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ پاناما کیس میں بھی ممکن تھا کہ اسے پارلیمان میں حل کیا جاتا لیکن کیوں کہ اس میں کچھ باتیں ایسی تھی جو کریمنل قوانین کے دائرے میں آتی تھیں لہذا وہ عدالت بھی جاسکتا تھا۔ لیکن بہتر تھا کہ پارلیمانی فورم استعمال کرلیا جاتا۔ کیوں کہ ہماری عدالتیں بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہیں۔ کیسز ہزاروں کی تعداد میں زیرِ التوا ہیں۔ سیاسی کیس آنے پر عدالتوں کا بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔
'سیاسی فورم پر مل بیٹھ کر بات کرنا ہوتی ہے'
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سیاسی فورم میں مخالفین سے بیٹھ کر بات کی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے سیاسی قائدین نے وطیرہ بنا لیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔
اُن کے بقول سیاست دانوں کو یہ لگتا ہے کہ وہ عدالتی فورم پر جائیں گے، تو میڈیا بھی انہیں بھرپور کوریج دے گا اور اگر فیصلہ حق میں آ گیا تو وہ چیمپئن بن جائیں گے۔ درحقیقت اس روایت کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ شیخ رشید کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ وہ ٹی وی ٹاک شوز اور عدالتوں میں کیسز کے ذریعے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی دیگر سیاست دان بھی اب یہ روش اختیار کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول اگر کوئی سیاست دان ہے تو اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے متعلقہ فورم یعنی پارلیمنٹ میں آواز بلند کرے اور اپنے سیاسی مخالف کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے قائل کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لایا جائے، جہاں پہلے سے ہی کئی کیسز زیرِ التوا ہیں۔ عام آدمی عدالت میں جائے تو بات بنتی ہے لیکن پارلیمان کا فورم ہوتے ہوئے عدالتوں میں جانا درست نہیں۔
SEE ALSO: جسٹس فائز عیسیٰ نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر سوال اُٹھادیےسیاسی معاملات میں عدالتوں کا کردار
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ قصور صرف سیاست دانوں کا نہیں ہے، بلکہ بعض سیاسی نوعیت کے کیسز عدالتوں نے بھی سنے جن کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے تھی۔ اگر ابتدا میں ہی عدالتیں ایسے کیسز سننے سے انکار کرتیں، تو پھر نوبت یہاں تک نہ آتی کہ ہر معاملے کو ہی عدالت میں ہی لایا جائے۔
اُن کے بقول عدالتوں نے بعض ایسے کیسز کو سنا اور بہت تفصیل سے سنا، اس پر ریمارکس دیے، آبزرویشن دیں، جو ہیڈ لائنز بنتی رہیں۔ اس سے شاید کسی کی پبلسٹی کا شوق پورا ہو رہا تھا۔ شہرت کس کو اچھی نہیں لگتی، آخر ججز بھی انسان ہیں۔ لیکن اب عدالتیں بھی یہ محسوس کر رہی ہیں کہ سیاست دانوں نے اس سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا ہے۔ '
'پارلیمنٹ کمزور ہو تو پھر معاملہ عدالت میں ہی آتا ہے'
سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر اور سابق سینیٹر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہے۔ لوگوں کا اعتماد بھی اس پر کم ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی ہوتی تو آئین کا احترام نہ کرنے والوں کو سزائیں دی جاتیں، لیکن یہاں سیاست دانوں کو پھانسیاں ہوئیں اور سیاست دان اپنی اہمیت نہیں منوا سکے۔ ان لوگوں کو خود پر اعتماد نہیں اس لیے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں اور عدالتیں بھی فخریہ انداز میں اس بات کا کریڈٹ لیتی ہیں کہ دیکھیں ہم نے فلاں کیس کا فیصلہ کردیا اور مارشل لا کو دفن کردیا۔
SEE ALSO: کیا پاکستان میں نظریۂ ضرورت کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا؟
پارلیمان کو مضبوط کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال پر امان اللہ کنرانی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس وقت تک خود مختاری نہیں مل سکتی جب تک سیاست دان خود کو مضبوط نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ دیکھ لیں، کئی ایسے معاملات پارلیمنٹ نے فوری منظور کر لیے جن کے لیے پسِ پردہ قوتیں دباؤ ڈالتی تھیں۔ ان میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے سے لے کر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس بل سمیت اس نوعیت کے دیگر بلز شامل ہیں۔
'چیف جسٹس نے کہا آپ رُکن اسمبلی ہیں یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے جائیں'
سماعت کے بعد شیخ رشید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 72 وزرا آئین کے آرٹیکل 92 (1) کے تحت زیادہ ہیں، لیکن چیف جسٹس صاحب نے کہا آپ ممبرپارلیمنٹ ہیں آپ جا کر اسمبلی میں ان مسائل کو حل کریں۔ عدالتوں کو اس میں ملوث نہ کیا جائے۔
شیخ رشید نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ 72 رکنی کابینہ کی تقرری آئین کے آرٹیکل 92 (1) کی خلاف ورزی ہے۔ قانون کے مطابق صدر, وزیر اعظم کے مشورے پر پارلیمنٹ کے رکن میں سے وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کا تقرر کریں گے۔لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ان وفاقی وزرا اور وزرائے مملکت کی تعداد جو سینیٹ کے رکن ہوں کسی بھی وقت وفاقی وزرا کی ایک چوتھائی تعداد سے زیادہ نہیں ہوگی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کی کابینہ 72 ارکان پر مشتمل ہے جن میں 34 وفاقی وزرا، 7 وزرائے مملکت، 4 مشیر اور 27 معاونین خصوصی شامل ہیں۔ لہذا وزیر اعظم کے معاونین کی مقررہ حد سے زیادہ تعیناتیوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔